کہ پاکستا ن میں اداروں کو مضبوط بنانے اور قانون پر عملدداری یقینی بنانے کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہترین موقع فراہم کیا ہے جس سے فائدہ اُٹھا کر اسے پائیدار ترقی سے ہمکنار کرنے کیلئے ہم سب کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنے فرائض کی ادائیگی میں احساس ذمہ داری اور خوداحتسابی کوفروغ دینا ہوگا۔ یونیورسٹی کے اقبا ل آڈیٹوریم میں ڈینز‘ڈائریکٹرز‘چیئرمین اور انتظامی سربراہان کے ہمراہ منسٹریل سٹاف سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوانے کہا کہ یونیورسٹی میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران تعیناتیو ںاورترقیوں میں سفارش اور اقرباپروری کو فروغ دے کر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں جس کی وجہ سے تدریسی و انتظامی سٹاف شدید ذہنی ونفسیاتی دباﺅ کا شکار ہوکراپنی صلاحیت کے مطابق اُمور انجام نہیں دے پا رہا۔ انتظامی و معاون سٹاف کو ذمہ داریوں کی ادائیگی میں حسن اخلاق اور شائستگی پروان چڑھانے کی ہدایت کرتے ہوئے انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ آئندہ تین ماہ کے دوران باصلاحیت اور حقدارلوگوں کی تعیناتیاں اور ترقیاں یقینی بناکران کا مورال بلند کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ناانصافی ہی وہ بنیاد ہے جو معاشرے میں بگاڑ اور شدت پسندرویوں کو جنم دیتی ہے لہٰذا گزشتہ ایک دہائی کے دوران یونیورسٹی کمیونٹی میں پائی جانیوالی محرومیوں کا ازالہ کرنے کیلئے وہ تمام توانائیاں صرف کرنے کے آرزومند ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انتظامی و تدریسی سسٹم میں اصلاحات متعارف کروانے میں مزید تاخیر نہیں کی جائے گی اور جلد ہی اسے آٹومیشن پرمنتقل کیا جا رہا ہے تاکہ کسی بھی ٹیبل پر کوئی فائل ایک مخصوص وقت سے زائدنہ رُکنے پائے۔ انہوں نے ملازمین کو یقین دلایا کہ ان کی اعلیٰ تعلیم کی راہ میں حائل انتظامی رکاوٹوں کا ازسرنوجائزہ لیا جائے گا اور ایسی پالیسی متعارف کروائی جائے گی جس سے وہ نہ صرف اعلیٰ تعلیم بلکہ ووکیشنل ٹریننگ کے ذریعے بھی اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہم نے آج سے بیس پچیس سال پہلے پیدا ہونے والے بچوں میں نظریہ پاکستان ‘تقسیم ہندکی وجوہات اور اس موقع پر دی گئی لازوال قربانیوں کے حوالے سے خاطر خواہ معلومات ان کے سپرد نہیں کیںیہی وجہ ہے کہ وہ قیام پاکستان کے حقیقی مقاصد سے لابلد اور حقوق و فرائض کی ادائیگی سے قطعا ناآشنا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان کے وقت ہم ایک قوم تھے جو وقت گزرنے کے ساتھ ایک ہجوم بن کر رہ گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مساجد اور مبلغین کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوا ہے تاہم اس کے برعکس معاشرتی اصلاح کے ساتھ معاشرے کو آگے بڑھانے کے حوالے سے خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہورہی۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ پچیس برسوں کے دوران معاشرے میں مایوسی اور انتہاءپسندی فروغ پائی ہے جس کے خاتمے کیلئے ہمیں نوجوانوں میں کونسلنگ کے ساتھ ساتھ ان کی صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے ذمہ داریاں انکے سپرد کرنے کی راہ ہموار کرناہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ ملک میں نئی حکومت کی صورت میں تبدیلی کی خوشگوار ہوائیں چل رہی ہیں اور اگر ہم اداروں کو مضبوط کرتے ہوئے قانون کی عملداری کویقینی بنانے میں کامیاب ہوگئے توپاکستان کی تیزرفتارترقی میں حائل رکاوٹیں ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائیں گی۔انہوں نے ملازمین پر زور دیا کہ اپنے یونٹس میں نظم و ضبط پیدا کرتے ہوئے ذمہ داریوں کو احسن انداز میں ادا کریں اور یونیورسٹی انتظامیہ انہیں ان کی رخصت استحقاقیہ سے کبھی محروم نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے انہیں موقع دیا تواُمور طلبہ اور اقامتی ہاسٹلز میں نظم و ضبط اور الاٹمنٹ کا سسٹم نوجوان طلبہ کے سپردکر نے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ انہیں عملی زندگی میں مینجمنٹ کے حوالے سے خاطر خواہ تربیت فراہم ہوسکے۔ تقریب سے ڈپٹی رجسٹرار تعلقات عامہ سید قمر بخاری نے بھی خطاب کیا۔