زرعی یونیورسٹی کے شعبہ پلانٹ بریڈنگ و جنیٹکس میں مکئی کے تحقیقی گروپ کے زیراہتمام منعقدہ ایک روزہ بین الاقوامی سیمینار کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی صوبائی وزیربیت المال و سوشل ویلفیئرچوہدری محمد اجمل چیمہ نے سائنس دانوں پر زور دیا کہ وہ اپنی تحقیقی ترجیحات کا رخ مکئی کی پیداوار میں حائل رکاٹوں کو دور کرنے کی جانب کریں کیونکہ اگر وہ خشک سالی کے دنوں میں مکئی کی پیداوار کوبرقرار رکھنے میں کامیاب ہوگئے تو اس سے ہونے والے نقصان کو کم کیا جا سکے گا۔انہوں نے کہاکہ خشک سالی اور برداشت کے وقت نمی کے دباﺅ کی وجہ سے مکئی کی پیداوار 12فیصد تک کم ہو جاتی ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ مکئی کی مکینیکل برداشت کی ٹیکنالوجی کو عام کاشتکار تک پہنچایا جائے جس سے کسان کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ کی راہ ہموار ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت زرعی شعبہ کی ترقی کیلئے کوشاں ہے یہی وجہ ہے کہ زرعی استعمال کیلئے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں حکومتی سبسڈی بڑھائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کھادوں کی قیمت کو کسان کی قوت خرید میں رکھنے کیلئے 7ارب روپے کی سبسڈی فراہم کر رہی ہے جبکہ زرعی قرضوں میں اضافہ کیلئے بھی خاطر خواہ وسائل فراہم کئے جا رہے ہیں۔ یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر اشفاق احمد مان نے کہا کہ ہرچندملک میں مکئی کی فی ایکڑ پیداوار ترقی یافتہ ممالک سے کم نہیں ہے تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ اس کا انسانی استعمال بڑھاکر بچوں اور نوجوانوں کی غذائیت پوری کی جانی چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ آج شہری نوجوانوں خصوصاً خواتین کی بڑی تعداد کو غذائی ترجیحات اور بدلتی ہوئی طرز زندگی کی وجہ سے پوری نیوٹریشن نہیں مل رہی جس کے نتیجہ میں ان کی جسمانی نشوونما جمود کا شکار ہے لہٰذا وہ سمجھتے ہیں کہ فی من گندم کے ساتھ مکئی کی بھی ایک خاص شرح آٹے میں شامل کرکے انسانی غذاءکا حصہ بنایا جائے۔کراپ لائف پاکستان کے بین الاقوامی ماہر مسٹر محمد عاصم نے کہا کہ خیبرپختونخواہ کے مقابلہ میں پنجاب میں مکئی کے زیرکاشت رقبہ میں اضافہ ہورہا ہے اور بہاریہ مکئی کی آمد سے اس کی پیداوار اورکسان کے منافع میں چار گنا تک اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1961ءمیں ایک پاکستانی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کیلئے 1ایکڑ رقبہ دستیاب تھا جو اب کم ہوکر ایک تہائی رہ گیا ہے لہٰذا ہمیں محدود زرعی رقبہ کے تناظر میں تمام زرعی اجناس کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کیلئے کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں جڑی بوٹیوں‘ فصل کی کیڑوں اور بیماریوں کی وجہ سے پیداوار میں ہونیوالی 40فیصد کمی کوروکنے کے ساتھ ساتھ متناسب زراعت کے ذریعے پیداواری لاگت کو بھی کم کرنا ہوگا ۔
انہوں نے کہاکہ حکومت کو پلانٹ بریڈرزایکٹ پر پوری توانائی سے عملدرآمد یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ پلانٹ کوارنٹین کے مسائل کو بھی حل کرنا ہوگا۔چین کی شن چانگ زرعی یونیورسٹی کے ڈاکٹر چاﺅ چینگ نے کہا چین کے دوسرے صوبوں کے مقابلہ میں شن چیانگ میں زراعت بہترنتائج دے رہی ہے اور کپاس اور گندم کے بعد مکئی تیسری بڑی فصل کے طور پر کاشت کی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چین میں مکئی کی مکینیکل ہاروسٹینگ رواج پا چکی ہے اور اس کے بیج کی مقامی تیاری بھی یقینی بنا دی گئی ہے جس سے اس کی پیداواری لاگت میں کمی نے کسان کی آمدنی میں اضافہ کی راہ ہموار کر دی ہے۔ ڈین کلیہ زراعت ڈاکٹر آصف تنویر نے کہا کہ مکئی کے ہائی بریڈ بیج کی درآمد پر اربوں روپے خرچ کئے جا رہے ہیں جبکہ بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں لائیوسٹاک‘ پولٹری‘ فاڈر‘ سائلیج کی ضروریات پوری کرنے کیلئے مستقبل میں مکئی کی پیداوار میں 45ملین ٹن اضافہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے ماہرین پر زور دیا کہ ہمیں مکئی کی ایسی ورائٹی متعارف کروانا ہوگی جو انسانی خوراک‘ پولٹری فیڈ‘ سائلیج ‘فاڈر اور ملنگ میں یکساں طور استعمال کی جا سکے۔ کلوکیئم سے ڈاکٹر اشفاق احمد چٹھہ‘ ڈاکٹر افتخار احمد خاں‘ ڈاکٹر خالد عزیز‘ ڈاکٹر عبدالرحمان بصیر‘ محمد رفیق اور عامر مقبول نے بھی خطاب کیا جبکہ نقابت کے فرائض سیکرٹری کلوکیئم ڈاکٹر محمد اسلم نے ادا کئے۔