زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی کلیہ فوڈ نیوٹریشن و ہوم سائنس میں انسٹی ٹیوٹ آف ہوم سائنسز کے اشتراک سے انٹرنیشنل سیمینار کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوا نے کہاکہ شہری علاقوں کی مصروف زندگی میں ہماری غذائی ترجیحات اور لائف سٹائل اس قدر تبدیل ہوچکا ہے کہ ہم کھانے کا لطف اُٹھانے کے بجائے اپنے ذہن و قلب کودوسرے معاملات میں الجھائے رکھتے ہیںجس کی وجہ سے ایسا کھاناہماری غذائی ضروریات کو مکمل طور پر پورا نہیں کر پاتا۔ انہوں نے کہاکہ انسانی جسم میں نیوٹریشن کی کمی ‘ موٹاپا یا صحت کے جملہ مسائل کا ذمہ دار انسان خود ہے کیونکہ اس کے معمولات ‘ طرز زندگی اور غذائی ترجیحات اس کی صحت کا گراف متعین کرتی ہیں لہٰذا اگر ہم اسلام کے سنہری اُصولوں کے مطابق رات کو جلدی سونے اور صبح نماز کیلئے بروقت بیدار ہونے کے ساتھ ساتھ وقت نکال کرناشتے کا لطف اُٹھانا شروع کر دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے جسم میں نیوٹریشن کی کمی پیدا ہو۔
انہوں نے سیمینار میں شریک خواتین اور طالبات پر زور دیا کہ موبائل فونز‘ انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن سکرینوں پر زیادہ توجہ دینے کے بجائے صحت مند سرگرمیوں کو زندگی کاحصہ بناتے ہوئے دیسی اور گھرپر تیار کئے جانیوالے کھانے کو رواج دیں تومستقبل میں ایک صحت مند معاشرہ پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہرچندمصروف زندگی میں فاسٹ فوڈ اور بازاری کھانوں کا استعمال ہماری بھوک تو مٹا دیتا ہے تاہم اس کی وجہ سے ہمارے نظام انہظام میں جو بے ترتیبی وقوع پذیر ہوتی ہے اس کا خمیازہ پورے جسم کو بھگتنا پڑتا ہے۔انہوں نے کہاکہ ہمیں اپنے روزمرہ معمولات کو فوری تبدیل کرکے اسے اسلامی تعلیمات کے تابع کرنا ہوگا ورنہ آئندہ نسلیںہماری کوتاہیوں کا شکار ہوکر صحت مند زندگی سے دورہوجائیں گی۔انہوں نے سیمینار میںشریک خواتین پر زور دیا کہ فوری طو رپر وٹامن ڈی‘ تھائی رائیڈاور وٹامن بی 12کا ٹیسٹ کروائیں اور ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق اپنے معمولات کو ازسرنو ترتیب دیں۔ کورین ماہر غذائیات ڈاکٹر جہان کم نے کہا کہ ان کے ملک میں 1960ءکی دہائی کے دوران نیوٹریشن اور صحت کے حوالے سے جملہ مسائل درپیش تھے تاہم وہاں کے ماہرین غذائیات اور صحت نے نچلی سطح پر لوگوں خصوصاً خواتین کومتوازن اور صحت افزاءخوراک کے استعمال کی راہ دکھاتے ہوئے معاشرے میں بہتری کی جانب پیش رفت کی۔ ڈین کلیہ فوڈ‘ نیوٹریشن و ہوم سائنس ڈاکٹر مسعود صادق بٹ نے کہا کہ ملک کی آدھی آبادی خصوصاً خواتین اور بچے غذائی کمی کا شکار ہے جس کی وجہ سے بچوں کی نشوونماجمود کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ خواتین میں خون کی کمی انہیں صحت مند زندگی سے دور کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو توانائی بحران سے برآمدات میں کمی اور بے روزگاری کے نتیجہ میں ملکی شرح نمو میں دو فیصد کمی کے مقابلہ میں غذائی کمی ‘ آئرن‘ وٹامن ڈی اور صحت سے جڑے دوسرے مسائل سے نبردآزما ہونے کیلئے جی ڈی پی کا تین فیصد نقصان برداشت کرنا پڑرہا ہے لہٰذا نچلی سطح پر متوازن خوراک کے استعمال کو رواج دینے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے نوجوانوں کو بازاری گھانوں کے بجائے گھر پر تیار کئے جانیوالے کھانے کا پورا لطف اٹھانے کی راہ دکھانا ہوگی تاکہ ایسی غذا نہ صرف ہماری بھوک مٹائے بلکہ ہماری جسمانی ضروریات کابھی پوری طرح احاطہ کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں خوراک کی چنداں کمی نہیں لہٰذا اپنی ترجیحات اور طرز زندگی میں ضروری تبدیلی کو یقینی بناکر ہمیں ایک صحت مند معاشرے کو پروان چڑھانے میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ سیمینار سے ڈاکٹر رابعہ‘ ڈاکٹر آمنہ چغتائی ‘ مسزربعہ انوراور ڈاکٹر عائشہ ریاض نے بھی خطاب کیا۔