نیو سینٹ ہال میں منعقدہ پروگرام میں زرتاج گل وزیر نے کہا کہ بدقسمتی سے ماضی میں ہمیں سچی ‘نڈراور قائدانہ صلاحیتوں کی حامل لیڈرشپ میسر نہیں آئی تاہم وہ سمجھتی ہیں کہ قائد اعظمؒ کے بعد عمران خان کی صورت میں پاکستان کو ایک سچا ‘ نڈراور ایسا محب وطن قائد میسر آیا ہے جوپوری تندہی اور جواں ہمتی کیساتھ ملک کو معاشی بحرانوں سے نکال کر پائیدار ترقی کے ساحل مراد تک لیجانے کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔
انہوں نے کہا کہ زمین کے حیاتیاتی تنوع کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور ہماری مجرمانہ کوتاہیوں کی وجہ سے درجہ حرارات میں نہ صرف غیر معمولی اضافہ ہوا ہے بلکہ ماحولیات کو درپیش گھمبیر مسائل سے انسانی زندگی بھی بری طرح متاثر ہوررہی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ آج موسمیاتی تبدیلیاں ہمارے رویوں پر پوری شدت سے اثرانداز ہورہی ہیں یہی وجہ ہے کہ یورپی اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والوں کے مقابلہ میں پاکستانیوں کا رویہ اور ان کے معمولات مختلف ذہنی و نفسیاتی مسائل اور الجھنوں کا شکار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گرمیوں میں ڈیرہ غازی خاں کا عمومی درجہ حرارت 47درجے سینٹی گریڈسے زیادہ ہوتا ہے اور وہ محسوس کر سکتی ہیں کہ علاقہ میں ٹمبرمافیا کی چیرہ دستیوں کے ساتھ ساتھ مقامی سیاسی قیادت نے درختوں کی کٹائی روکنے اور نئے درخت لگانے میں جس مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے اس کا جواب لوگوں نے عام انتخابات میں انہیں بخوبی دے دیا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ تحریک انصاف کی حکومت نئے آبی ذخائر کی تعمیر کیلئے پرعزم ہے اور اس حوالے سے کسی سیاسی مصلحت کا ہرگزشکار نہیںہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آلودہ پانی اور نکاسی آب کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے ہر سال 54ہزار بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔ انہوں نے بتایاکہ پاکستان میں ٹمبرمافیا نے درختوں کا بے دردی سے قتل عام کیا ہے لیکن عمران خان کی قیادت میں موجودہ حکومت نہ صرف اس مافیا کا محاسبہ کرے گی بلکہ کلین و گرین پاکستان مہم میں اربوں درخت لگا کر ملک کے ماحول کو بھی بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے بتایا کہ ہرچند ان کی منسٹری نے عالمی و علاقائی سطح پر ماحولیات کے حوالے سے 14معاہدوں پر دستخط کئے ہیں تاہم بھارت کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے مطابق دونوں ممالک اپنا زرعی و صنعتی فضلہ جلانے کے بجائے جدید سائنسی طریقے سے ٹھکانے لگانے کے پابندہیں اور پاکستان نے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے 3نومبر سے 30دسمبر تک اینٹوں کے بھٹوں کو بندرکھنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ سموگ اور دوسرے ماحولیاتی مسائل کے عالمی معاہدوں پرمکمل عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔
قبل ازیں وائس چانسلرچیمبر میں وزیرمملکت زرتاج گل اور گورنر پنجاب کی اہلیہ مسز پروین سرورسے بات چیت کے دوران یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوا نے کہاکہ عمران خان کی قیادت میں ملک کو درپیش مسائل کا وقتی حل نکالنے کے بجائے طویل المدت اور پائیدار حل کی ایسی حکمت عملی ترتیب دی جا رہی ہے جس کے دوررس نتائج برآمد ہونگے۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے سٹیزن پورٹل کو انقلابی اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی میں بھی ویب پورٹل کے ذریعے سامنے آنیوالے مسائل اور تجاویز کو اسی طرز پر پراسیس کے بعد فیصلہ سازی کا حصہ بنایا جا رہا ہے جس کے خوشگوار اثرات مرتب ہونگے۔ انہوں نے بتایا کہ زرعی یونیورسٹی ملک بھر کی جامعات میں سب سے زیادہ سرسبزو شاداب اور خوبصورت جامعہ ہے جس میں لگے لاکھوں درخت شہریوں کو آکسیجن مہیا کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ یونیورسٹی ماہرین کی ٹیم وزیراعظم کے پلانٹ فار پاکستان پروگرام میں اب تک 10لاکھ سے زائد پودے لگا چکی ہے اور یونیورسٹی طلبہ‘ اساتذہ اور سٹاف کے 30ہزارسے زائد لوگ محکمہ جنگلات اور آبپاشی کے اشتراک سے نہروں کے کناروں پر مزید لاکھوں درخت لگانے کیلئے پرعزم اور ہمہ وقت تیار ہیں۔انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ آف سوائل و انوائرمنٹل سائنسز میں ماہرین کی ٹیم نے آرسینک سے متاثرہ پانی کی فلٹریشن کیلئے قابل عمل ٹیکنالوجی متعارف کروائی ہے جسے استعمال میں لاکر وسطی اور جنوبی پنجاب کے زیرزمین آرسینک سے متاثرہ پانی کوقابل استعمال بنایا جا سکے گا۔ یونیورسٹی میں کلائمیٹ چیئرکے سربراہ ڈاکٹر اشفاق احمد چٹھہ نے کہا کہ بالائی علاقوں سے لاکھوں درختوں کی کٹائی سے پیداہونیوالے زمینی کٹاﺅ کی وجہ سے تمام بڑے آبی ذخائر میںمٹی بھرجانے سے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں غیرمعمولی کمی واقع ہوگئی ہے جس کی وجہ سے زرعی و صنعتی ترقی کا پہیہ ُرکنے کا اندیشہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی ٹیم نے موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ اور موافق ایسی زرعی حکمت عملی ترتیب دی ہے جس کے ذریعے زراعت کی ترقی کو موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی ٹیم کے ذریعے محکمہ زراعت کے سینکڑوں ملازمین کو کلائمیٹ چینج آڈاپ ٹیشن ٹیکنیک کے حوالے سے ضروری تربیت فراہم کر چکے ہیں ۔ ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف سوائل و انوائرمنٹل سائنسز ڈاکٹر جاوید اختر نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے کرہ ارض پر زندگی کونئے چیلنجز کا سامنا ہے جس سے عہدہ برآ ہونے کیلئے حکومت کے ساتھ ساتھ غیرسرکاری اداروں اور سماجی تنظیموں کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ فریش واٹر ریسورسز اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان دنیا کے خطرناک ممالک کی فہرست کا حصہ بننے جا رہا ہے جوحکومت کے ساتھ ساتھ آبی و موسمیاتی ماہرین کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ انسٹی ٹیوٹ میں اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر ارشاد بی بی نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ کرہ ارض پردستیاب پانی کا صرف 2.5فیصدحصہ انسانی استعمال کے قابل ہے جس کا 73فیصد حصہ زیادہ آبادی کے حامل ایشیائی ممالک کی کوتاہ اندیشیوں کی نذر ہونے سے آج فریش واٹر کے دستیاب وسائل میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوگئی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ 2025تک پاکستان میں تازہ پانی کی ضروریات ہمیں دستیاب 145ملین ایکڑفٹ کے مقابلے میں دوگنا ہوجائیں گی لہٰذا وہ سمجھتی ہیں کہ نئے آبی ذخائر کی تعمیرمیں مزید تاخیرآنیوالی نسلوں کے ساتھ مجرمانہ زیادتی کے مترادف ہوگی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ 2025ءتک ملک کے 60فیصد لوگوں کو صاف پانی میسر نہیں ہوگالہٰذا ہمیں آج ہی سے انفرادی و اجتماعی سطح پر پانی کی بچت کو فروغ کے ساتھ ساتھ ایک لیٹر منرل واٹر کی تیاری کیلئے 70لیٹر پانی کے ضیاع کو بھی روکنا ہوگا۔انہوں نے بتایا کہ بچوں میں 60فیصد اموات آلودہ پانی کے استعمال سے ہورہی ہیں جس کے سدباب کیلئے حکومت اور غیرسرکاری تنظیموں کو اپنا کردار اد کرنا ہوگا۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے شہری علاقوں میں صرف 1.2فیصد پانی کی ری سائیکلنگ کی جاتی ہے جس کے مقابلہ میں چین میں 71اور بھارتی شہروں کا 22فیصد پانی ری سائیکلنگ کے بعد دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے۔