زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی کلیہ فوڈ‘ نیوٹریشن وہوم سائنسز‘ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فوڈ سائنس و ٹیکنالوجی اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف فوڈ سیفٹی اینڈ نیوٹریشن کے اشتراک سے چار روزہ تربیتی ورکشاپ کا انعقاد انسٹی ٹیوٹ کے سیمینار روم میں ہوا۔ ورکشاپ کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ڈین کلیہ فوڈ ‘ نیوٹریشن و ہوم سائنس ڈاکٹرمسعودصادق بٹ نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکسٹائل کے بعد فوڈ انڈسٹری دوسری بڑا معاشی سیکٹر ہے جس میں اپنی برآمدات بڑھانے کیلئے ہمیں عالمی معیارات سے ہم آہنگ غذائی مصنوعات کی تیاری‘ جانچ پڑتال اور متعلقہ دستاویزات کی تیاری میں نوجوان افرادی قوت کو اس طرح تیار کرنا ہوگا کہ وہ اپنے لئے روزگار کے ساتھ ساتھ فوڈ انڈسٹری میں معیار کی غذائی مصنوعات کی تیاری کورواج دینے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ کلیہ فوڈ نیوٹریشن و ہوم سائنسز نے 9ڈگری پروگرامز کے ساتھ ساتھ فوڈ سیفٹی میں پوسٹ گریجوایٹ ڈ پلومہ بھی شروع کر رکھا ہے جس میں انسانی خوراک کے معیار کوبہتر بنانے کے حوالے سے تربیت فراہم کی جا رہی ہے۔انہوں نے پنجاب فوڈ اتھارٹی کے قیام اور عوام تک حفظان صحت کے مروجہ اصولوں کے مطابق خوراک کی فراہمی میں ان کے کردار کو سراہتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ تربیتی ورکشاپ کے ذریعے فوڈ انڈسٹری کو فوڈ سیفٹی سے متعلقہ معاملات سے مکمل طور پر آگاہ باصلاحیت افرادی قوت فراہم ہوگی جو نہ صرف غذائی معیار میں بہتری کو یقینی بنائیں بلکہ غذائی مصنوعات کی برآمدات میں آئی ایس او سے متعلقہ قوانین کے مطابق مصنوعات کی جانچ پڑتال اور دستاویزات کی تیاری میں بھی اپنا فعال کردار ادا کر سکیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف فوڈ سیفٹی و نیوٹریشن کے ڈائریکٹر محمد تنویر نے کہا کہ انہوں نے مختصر عرصہ کے دوران ملتان میں فوڈ انڈسٹری کے ذمہ داران کو فوڈ سیفٹی کے معیارات کی جان کاری کے ساتھ ساتھ ساتھ ان کی مصنوعات کی برآمدات میں حائل رکاوٹوں پر بھی ان کی رہنمائی کے بعد اپنی سرگرمیوں کا دائرہ دوسرے شہروں تک وسیع کیا ہے تاکہ فوڈ انڈسٹری میں ترقی کے امکانات اور عالمی منڈیوں تک ملکی مصنوعات کا راستہ ہموار کیا جا سکے۔انہوں نے توقع ظاہر کی کہ چار روزہ تربیتی ورکشاپ کے بعد شرکاءیقینی طور پر اس قابل ہوں گے کہ وہ نہ صرف غذائی مصنوعات کا معیار جانچ سکیں گے بلکہ فوڈ انڈسٹری میں کنسلٹنٹ کے طو رپر بھی اپنی خدمات پیش کر سکیں گے۔
انسٹی ٹیوٹ کی سینئر پروفیسرڈاکٹر نزہت ہما نے کہا کہ ڈیری انڈسٹری میں فوڈ سیفی کے درجنوں مسائل ہیں جن پر قابو پاکر نچلی سطح پر کسان کی آمدنی بڑھانے میں مدد کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فارم سے ڈائننگ ٹیبل تک کے مراحل میں 40فیصد خوراک ضائع ہوجاتی ہے لہٰذا ہمیں غذاءکی تیاری میں فوڈ سیفٹی کے جملہ چیلنجز کوذہن میں رکھ کر پیش رفت کرنی چاہئے۔ ڈاکٹر علی حسن نے کہا کہ ورکشاپ کے بعد شرکاءفوڈ انڈسٹری میں انٹرل آڈٹ اور برآمدات کیلئے ڈاکومنٹ ٹیشن میں انڈسٹری مالکان کی مدد کر سکیں گے۔
زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے سینئر ٹیوٹر آفس میں روٹریکٹ کلب اور روٹری کلب کے اشتراک سے پولیو کے عالمی دن کے حوالے سے یونیورسٹی ڈے کیئر سینٹر کے بچوں میں پولیو قطرے پلانے کی تقریب اقبال آڈیٹوریم کے پہلو میں منعقد ہوئی۔ تقریب کے مہمان خصوصی روٹری کلب فیصل آبا دکے صدر محمد اسلم بٹ تھے جبکہ سینئر ٹیوٹر ڈاکٹر اطہر جاوید خاں نے مہمان اعزاز کے طو رپر تقریب میں حصہ لیا۔اس موقع پر شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے روٹری کلب کے صدر محمد اسلم بٹ نے پولیو ویکسین کی مفت فراہمی میں تعاون کرنے والے اداروں اور این جی اوز کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری اپنی بچت اور ٹیکسوں کی رقوم سے جس طرح پولیو سے بچاﺅ کی ویکسین خرید کر پاکستان کو فراہم کرتی ہے وہ لائق تحسین ہے۔ انہوں نے بتایا کہ روٹری کلب پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھی گزشتہ تین دہائیوں سے پولیو ویکسین مفت فراہم کر رہا ہے تاکہ خطے سے پولیو وائرس کے پائیدار خاتمہ ممکن بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہرچند پولیو ٹیموں کو ماضی کے مقابلے میں آج کم چیلنج درپیش ہیں تاہم وہ چاہتے ہیں کہ نچلی سطح پر خصوصاً جنوبی پنجاب ‘خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں پولیوقطروں کے حوالے سے پائی جانیوالی غلط فہمی کے خاتمے میں مقامی علمائے دین اور ماہرتعلیم ہمارے دست و بازو بنیں۔
انہوں نے بتایا کہ روٹری نے گھریلو سطح پر پولیو ویکسین کی محفوظ ترسیل کیلئے سٹاف کو پاکستان میں 1لاکھ جبکہ افغانستان میں پچاس ہزار کٹیں اور جیکٹس فراہم کی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ روٹری عالمی سطح پر پولیو ویکسین کی مفت فراہمی کیلئے ساڑھے تین ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے جس کے نتیجہ میں تین مشتبہ ممالک پاکستان‘ افغانستان اور نائجیریا کے علاوہ پوری دنیا سے پولیو وائرس کا خاتمہ ہوچکا ہے۔انہوں نے کہا کہ کہ اگر پولیو ٹیموں کے کام میں مزاحمت کرنے والوں کو اس امر کا ادراک ہوجائے کہ ویکسین صحت کیلئے کتنی ضروری ہے تو وہ اپنے بچوں کی صحت کیلئے لائن بنانے کے ساتھ ساتھ پیسے خرچ کرنے سے بھی گریز نہ کریں۔ انہوں نے کہاکہ میڈیا عوامی سطح پر پولیو ویکسین کی افادیت کا شعور اجاگر کرنے میں حکومتی اداروں اور این جی اوز کا ہراول دستہ ہے جسے سراہا جانا چاہئے۔ اس موقع پر ڈے کیئر سینٹر کے بچوں کو پولیو قطرے پلانے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی طلبہ کے مابین سائیکل ریلی کا انعقاد بھی کیا گیا۔