یہ باتیں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوا نے قومی احتساب بیورو اور یونیورسٹی میں کریکٹر بلڈنگ سوسائٹی کے اشتراک سے انسداد بدعنوانی سیمینار اور آگاہی واک کے شرکاءسے اپنے خطاب میں کہیں۔ اقبال آڈیٹوریم میں منعقدہ سیمینار سے مہمان خصوصی کے طور پر خطاب میں ڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوا نے کہا کہ وہ زمانے گزرے ماضی کا حصہ بن گئے جب لوگوں میں سوال کرنے اور رہنماﺅں میں سننے کا حوصلہ نہیں تھا اب پاکستان تبدیل ہوگیا ہے اور ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے عوام الناس کو جواب دہ ہے۔انہوں نے کہا کہ تعلیمی ادارے میں کرپشن کا آغازاسی دن ہوجاتا ہے جب ہم میرٹ سے ہٹ کر داخلہ کرتے ہیں ‘ انہیں ناجائز طریقے سے پاس کرنے کے ساتھ ساتھ اچھے گریڈ بھی دیتے ہیں اور ازاں بعد ان کیلئے میڈل اور بیرون ملک سکالرشپ پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ تعلیمی درسگاہ کا پروفیسراسی دن کرپشن کا آغاز کر دیتا ہے جب وہ اعلیٰ عہدے کیلئے اپنے پیشے کے تقدس کے خلاف سیاسی لوگوں کے ڈیروں کا طواف کرتا ہے اور وائس چانسلربننے کے بعد اُنہیں سیاسی آقاﺅں کی مرضی اور خواہش پر میرٹ پر سمجھوتہ روزانہ کا معمول بن جاتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اعلیٰ تعلیم کی دانش گاہ کے سربراہ کے طور پر ہمیں سیاسی لیڈرشپ کو یہ باور کروانا ہوگا کہ تعلیمی اداروں میں بہترگورننس کیلئے ہماری مانیٹرنگ کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی انتظامیہ سے تعاون بھی کریں۔انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ شفافیت کو یقینی بناتے ہوئے کبھی میرٹ پر سمجھوتہ نہیں کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ لامحدود اختیارات اور طاقت کسی بھی ادارے کے سربراہ کو انسان نہیں رہنے دیتی لہٰذا ضرورت ہے کہ ایسے اختیارات کا استعمال انصاف کے ساتھ یقینی بنانے کیلئے اقدامات بروئے کار لائے جائیں۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں روزانہ اپنی خود احتسابی کرنی چاہئے تاکہ اگر اس دن کسی سے کوئی زیادتی یا پیشہ وارانہ ذمہ داریوں میں کوتاہی ہوئی ہو تو اگلے ہی دن اس کا ازالہ کر لیا جائے۔ ڈائریکٹر قومی احتساب بیورومحمد حسنین شاہ نے بتایا کہ ان کا ادارہ اب تک 300ارب روپے قومی خزانے میں واپس جمع کروا چکا ہے اور ملزمان کو سزادلوانے میں کامیابی کا تناسب 76فیصد ہے۔
اہوں نے کہا کہ انسداد بدعنوانی کے حوالے سے نیب میں جاری موجودہ کیسزکا آغاز سابق حکومت میں ہی ہوگیا تھا جس میںوقت گزرنے کے ساتھ نئے معاملات سامنے آ رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چیئرمین نیب کی ہدایت پر مختلف تعلیمی اداروں‘ کالجز اور جامعات میں انسداد بدعنوانی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کیلئے سیمینار منعقدکر رہے ہیںتاکہ نوجوانوں کو بدعنوانی سے پاک معاشرے کے قیام کا ہراول دستہ بنایا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ ریاستی سطح پر بدعنوانی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اپنی صفوں میں بھی خود احتسابی کاعمل جاری رکھتے ہیں اور نیب میں جاری معاملات میں پیش رفت میڈیاکے ذریعے عوام الناس تک پہنچ رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قومی احتساب بیورولاہور 06دسمبر کو انٹرنیشنل انٹی کرپشن ڈے کے حوالے سے خصوصی سیمینار کروا رہا ہے جس کیلئے یونیورسٹی اساتذہ کے ساتھ ساتھ کریکٹر بلڈنگ سوسائٹی کے طلباءو طالبات بھی شامل ہوں۔ ڈپٹی ڈائریکٹر نیب حسن علی سکھیرا نے بتایا کہ احتساب عدالت متعلقہ صوبے کے چیف جسٹس ہائیکورٹ کے تحت کام کرتی ہے اور اس تاثر میں چنداں کوئی حقیقت نہیں کہ احتساب عدالت بھی نیب کا حصہ ہوتی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ نیب قوانین کے مطابق پلی بارگین عدالتی اجازت سے مشروط ہے جس میں ملزم سے اصل رقم سود سمیت واپس لی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیب اپنی کارروائی کسی بھی شکایت‘ عدالتی حکم یا قابل بھروسہ معلومات پر شروع کرتا ہے جس میں دستیاب معلومات کی بنیاد پر مروجہ انکوائری کے بعد حاصل ہونے والے شواہد پر ملزم سے اس بارے تفتیش کا عمل شروع کیا جاتا ہے ۔ سیمینار سے ڈاکٹر طاہر صدیقی اور رجسٹرار چوہدری محمد حسین نے بھی خطاب کیا۔