یونیورسٹی کے نیو سنڈیکیٹ روم میں میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر ظفر رندھاوا نے کہاکہ پیشہ وارانہ اُمور میں ایک ٹیچر کی یہی معراج ہے کہ معاشرے میں اسے ایک پروفیسرکے طور پر جانا جائے تاہم اگراسے تدریسی شعبے کا سربراہ‘ کلیہ کا ڈین یا وائس چانسلربنا دیا جائے تو یہ امر ایک غیرمعمولی توقیر کا حامل قرار دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ وائس چانسلرکے طور پر اپنی ٹیم میں تبدیلیاں میرٹ پر لا رہے ہیں جس سے معاملات میں بہتری اور شفافیت آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایک تعلیمی ادارے کے سربراہ کو کسی سیاسی دباﺅ میں آئے بغیراپنے اُمور کو میرٹ‘ شفافیت اور مشاورت کے ساتھ آگے بڑھاناچاہئے۔ انہوں نے میڈیا نمائندوں پر زور دیا کہ وہ یونیورسٹی معاملات پر نظر رکھتے ہوئے خامیوں کی میڈیا پر نشاندہی سے پہلے اگریونیورسٹی کی رہنمائی کریں تومعاملات میں جلد بہتری لائی جا سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی میں ایسا کلچر فروغ دیا جا رہا ہے جس کے ذریعے نوجوانوں کو اپنے مشاہیرکے کردار و عمل سے سیکھنے اور معاشرے کی خوبصورتیوں میں اضافے کی راہ دکھائی جائے گی لہٰذا یونیورسٹی میں ہونے والی ہر تقریب میں قومی ترانے کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں جامعات کی درجہ بندی کی اندھی دوڑھ میں انرول منٹ میں اضافہ کرکے کوالٹی ایجوکیشن پر سمجھوتہ کیا گیا تاہم ان کی کوشش ہوگی کہ پروفیشنل کونسلز کی منظوری کے بغیر شروع کئے گئے پروگرامز میں مزید داخلہ کئے بغیرپہلے سے جاری ڈگری پروگرامزمیں کوالٹی کو بہتر کیا جائے۔ انہوں نے اپنے انتظامی ویژن کی وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ وائس چانسلر کو اختیارات کا ارتکاز کرنے کے بجائے انہیں نچلی سطح پر منتقل کرتے ہوئے یونیورسٹی کی ترقی‘ طلبہ و ملازمین کی فلاح و بہبود‘ سہولیات کی فراہمی اور تعلیم و تحقیق میں نئی بلندیوں کے آفاق تلاش کرنے پر توجہ دینی چاہئے ۔ انہوں نے کہاکہ کسی بھی ادارے کے سربراہ کو ایک معینہ مدت سے زیادہ توسیع نہیں دی جانی چاہئے تاکہ وہ اپنی سوچ کے مطابق معینہ مدت کیلئے پالیسیاں ترتیب دینے میں کسی سیاسی یا انتظامی مصلحت کا شکار نہ ہونے پائے۔ انہوں نے کہا کسی بھی سرکاری عہدیدار کو دی جانیوالی توسیع سے سیکنڈ لائن لیڈرشپ پروان نہیں چڑھ پاتی لہٰذانئی نسل میں قائدانہ صلاحیتیں پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ان کیلئے آگے بڑھنے کی راہ بھی ہموار کرنا ہوگی۔
انہوں نے کہاکہ وہ یونیورسٹی کے تدریسی و انتظامی اُمور میں تعمیری تنقید کو ہمیشہ اہمیت دیتے ہیں اور روزانہ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے یونیورسٹی معاملات کے حوالے سے انکے علم میں آنیوالے مسائل کا فوری حل نکالا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اظہار رائے کی مکمل آزادی کے داعی ہیں اور چاہتے ہیں کہ یونیورسٹی میں ایسا کلچرفروغ دیا جائے جس میں شائستگی کے ساتھ اپنے تحفظات اور حدیث دل دوسروں تک پہنچانے کی روایت کو آگے بڑھایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کے بجائے خلفائے راشدین ؓ کے روشن کردار و عمل کے بعد برصغیر کے نامور انصاف پسند حکمران صلاح الدین ایوبی اور ٹیپو سلطان کے حالات زندگی نئی نسل کے سپرد کرنے چاہئیں ۔