یونیورسٹی فیصل آباد اور میولانا ایکسچینج پروگرام سلکوک یونیورسٹی ترکی کے اشتراک سے سویا بین ۔ چیلنجز و مواقع پر منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے مقررین نے افتتاحی سیشن سے خطاب میں کہیں۔ یونیورسٹی کے نیو سینٹ ہال میں منعقدہ کانفرنس کے مہمان خصوصی ڈویژنل کمشنر آصف اقبال چوہدری ‘مہمان اعزاز وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹرظفر اقبال رندھاوا جبکہ کلیدی مقررایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ میں ڈائریکٹر آئل سیڈ ڈاکٹر محمد آفتاب تھے۔
ڈویژنل کمشنر آصف اقبال چوہدری نے اپنے خطاب میں کہا کہ برصغیر میں برطانوی حکمرانوں نے ساندل بار کی اس دہرتی میںکاشتکاری اور سماجی ترقی کے امکانات کا ادراک کرتے ہوئے یہاں دنیا کا بہترین نہری نظام متعارف کرواکر زراعت کی بنیاد رکھی تاہم اب ہماری ذمہ داری ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات اور زراعت کو محض گزراوقات سے ایک مکمل کاروبار کا درجہ دینے کیلئے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کریں۔انہوں نے کہا کہ 3.623ملین ٹن خوردنی تیل کی ضرورت کے مقابلہ میں ہم صرف 12فیصد ملکی سطح پر پورا کرتے ہیں جبکہ ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے 88فیصدضروریات درآمدی تیل سے پوری کی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے ماہرین ملک کے بیشتر حصہ پر کاشت کی جانیوالی سویا بین ورائٹی متعارف کروانے میں کامیاب ہوگئے اور اس سے وابستہ انڈسٹری کیلئے مارکیٹ وجود میں آگئی تو اس منافع بخش فصل کی وسیع رقبہ پر کاشت کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوا نے کہا کہ غیرمتزلزل ارادہ اور نیک نیتی کے ساتھ اپنے اہداف کے حصول کی کوشش کی جائے تو کامیابی ضرور قدم چومے گی۔
انہوں نے بتایا کہ ڈویژنل کمشنر کیساتھ ملاقات میں اس امر پر اتفاق کیا گیا ہے کہ عاشورہ محرم کے فوری بعد ڈسٹرکٹ گورنمنٹ اور یونیورسٹی کے پلیٹ فارم سے وزیراعظم پاکستان کے پلانٹ فار پاکستان پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے ایک میگا ایونٹ منعقد کیا جائے گا جس میں یونیورسٹی طلبہ‘ پی ایچ اے‘ محکمہ آبپاشی اور فارسٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے اشتراک سے ایک منٹ میں ہزاروں درخت لگانے کا نیا ریکارڈ قائم کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں خوردنی تیل کے درآمدی بل میں کمی لانے کیلئے ہر کوشش بروئے کار لانا ہوگی جس کے ذریعے مقامی سطح پر خوردنی تیل کی پیداوار ممکن ہوسکے۔
ڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوا نے بتایاکہ ملک میں 1ارب ڈالر سے زائد مالیت کا سویا بین درآمد کیا جاتاہے جو پولٹری اور لائیوسٹاک فیڈ کا حصہ بنایا جا رہا ہے تاہم اگر اس کی مقامی سطح پر پیداوار ممکن بناکر کاشتکار کیلئے مارکیٹ کا قیام یقینی بنالیا جائے تواس کے زیرکاشت رقبہ میں یقینی اضافہ ہوگا۔انہوں نے توقع ظاہر کی کہ ترک ماہرین کے ساتھ اشتراک عمل سے پاکستان میں قابل کاشت سویا بین کا بہترپروفائل ترتیب پائے گا جس سے یقیناحوصلہ افزاءنتائج برآمد ہونگے۔ کانفرنس کے کلیدی مقررڈائریکٹر آئل سیڈایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ ڈاکٹر محمد آفتاب نے ہرچند مقامی سطح پر آئل سیڈکراپس میںسویا بین ایک نیا اضافہ ہے تاہم اس کی کاشت کو رواج دے کر 94فیصد درآمدی پام آئل کے حجم میں واضح کمی لاتے ہوئے کثیرزرمبادلہ بچایا جا سکتا ہے
انہوں نے بتایا کہ پنجاب میں سویا بین کاشت میں بڑی رکاوٹ زیادہ درجہ حرارت‘ کم بارش اور غیرموزوں زمینی ساخت ہے تاہم اگر اس کے زیرکاشت رقبہ میں اضافی آبپاشی کا بندوبست کرلیا جائے تو پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں پیدا ہونیوالے سویا بین آئل میں 38فیصد امریکہ‘ 25فیصد برازیل‘ 7فیصد چین جبکہ 4فیصد بھارت پیدا کر رہا ہے لہٰذا پاکستان میں اس کے زیرکاشت رقبہ میں اضافہ کیلئے ایسی ورائٹیاں متعارف کروانا انتہائی ضروری ہے جو پنجاب کے ماحول ‘ درجہ حرارت اور زمینی خدوخال سے مطابقت رکھتی ہوں۔ کانفرنس کے افتتحی سیشن سے کلیہ زراعت کے سینئر پروفیسرڈاکٹر آصف تنویر‘ کانفرنس کوارڈی نیٹر ڈاکٹر ہارون زمان خان اورسیکرٹری ڈاکٹر محمد اسلم ملک نے بھی خطاب کیا جبکہ ترکی سے ماہرین کا پانچ رکنی وفد بھی کانفرنس میں شریک ہے۔