تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط زرعی ترقی کے حصول کو ممکن بنایا جا سکے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار زرعی یونیورسٹی فیصل آباد اور سوا ئل سوسائٹی آ ف پاکستان کے زیرا ہتمام انٹرنیشنل کانگرس آف سوائل سائنس کی اختتامی تقریب اقبال آڈیٹوریم سے بطور مہمان خصوصی آن لائن اپنے خطاب میں کیا۔انہوں نے کہاکہ زمین کی زرخیزی میں کمی واقع ہو رہی ہے جو کہ مستقبل میں غذائی عدم تحفظ اور غربت میں اضافے کا باعث بنے گی۔انہوں نے کہا کہ زمین کی زرخیزی کوبہتر کرنے کیلئے سوائل سائنسز کے سائنسدانوں کو ٹھوس قابل عمل تجاویز سامنے لانی چاہیں تاکہ حکومتی سطح پر عمل درآمد کرواتے ہوئے اس سنگین مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے زرعی ایمرجنسی پروگرام کے تحت زرعی شعبے کی بہتری اور کاشتکاروں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ہر ممکن اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری 40 فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کو نئی بلندیوں سے ہمکنار کرنے کے لئے جدیدطریقہ کاشت کو اپنانا ناگزیر ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کو خوراک کی فراہمی کے لیے پیداواری صلاحیت میں اضافہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا کہ زمین کی زرخیزی میں کمی کو وجہ سے نا صرف فوڈ سکیورٹی جیسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں بلکہ کاشتکاروں کی آمدن میں کمی بھی واقع ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق 2050 میں پاکستان کی کی آبادی 30 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ زرعی ترقی کے استحکام اور فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لیے حکومتی سطح پر موثر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔انہوں کہا کہ زرعی یونیوسٹی میں اربوں روپے کے ریسرچ پراجیکٹس پر کام جاری ہے جوکہ زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے عالمی سطح پر زراعت کوچیلنجز کا سامنا ہے جو کہ مستقبل میں غذائی بحران کا باعث بن سکتے ہیں۔زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام کے وائس چانسلر ڈاکٹرفتح محمد مری نے کہا کہ قدرت نے پاکستان کو بہترین ماحولیاتی نظام، سازگار آب و ہوا اور دیگر عوامل سے نوازا ہے مگر روایتی طریقہ کاشت کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار ترقی یافتہ ممالک کی نسبت کافی کم ہے جس کے لئے زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے پیداوار میں اضافے کے حصول کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے محققین پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ کاشتکاروں کے مسائل کے حل اور فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے قابل عمل حل تلاش کریں۔انہوں نے کہا کہ زیر کاشت رقبے کو رہائشی کالونیوں میں تبدیل کرنے کی وجہ سے ملکی سطح پر مجموعی زرعی پیداوار میں روز بہ روز کمی واقع ہو رہی ہے جس پر قابو پانے کیلئے ایک مربوط لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ زراعت کی ترقی میں نجی انڈسٹری کو سرمایہ کاری کی جانب راغب کیا جانا چاہیئے۔زرعی یونیورسٹی کے ڈائریکٹر آفس آف ریسرچ انوویشن اینڈ کمرشلائزیشن ڈاکٹر ظہیر احمد ظہیر نے کہا کہ زمینی زرخیزی کا تحفظ اور ماحول دوست زرعی ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کیلئے تمام ممکنہ کاوشیں عمل میں لائی جا رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ زراعت کو سائنسی خطوط پر استوار کرکے ہی سبز انقلاب کاخواب شرمندہ تعبیر کیا جا سکتاہے۔انہوں نے ماہرین انڈسٹری،پالیسی سازاور سائنس دانوں پر زمین کی زرخیزی کے حل کیلئے مشترکہ کوششیں عمل میں لانے پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ اس بین الاقوامی کانگریس میں نا صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سوائل کے مایہ نازسائنسدانوں نے شرکت کی اور تین دن کی سوچ بچارکے بعد زرخیزی کے مسئلے پر قابو پانے کیلئے تجاویز مرتب کی گئی ہیں جنہیں جلد ہی حکومتی سطح پر پیش کیا جائے گا۔اس موقع پر ڈاکٹر شاہد محمود نے بھی خطاب کیا۔