ان خیالات کا اظہار انہوں نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ پلانٹ پتھالوجی کے زیراہتمام منعقدہ ساتویں فائٹو پیتھولوجیکل کانفرنس ”موجودہ صورتحال اور مستقبل کے امکانات“ کے افتتاحی سیشن سے بطور مہمان خصوصی آن لائن خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ دور حاضر میں موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے بیماریوں میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے جو کہ زرعی پیداوار میں کمی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کپاس کے پتہ مروڑ وائرس، آم کے درختوں کی اچانک موت، گندم، آلو اور دیگر فصلوں کی بیماریوں سے ماضی میں قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچا۔ انہوں نے مربوط حیاتیاتی کنٹرول کے لیے کوششوں کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے زرعی ایمرجنسی پروگرام کے تحت زرعی شعبے کی بہتری اور کاشتکاروں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ہر ممکن اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری 40 فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کو نئی بلندیوں سے ہمکنار کرنے کے لئے جدید مشینری کو اپنانا ناگزیر ہے۔ انہوں نے محققین پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ کاشتکاروں کے مسائل کے حل اور فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے قابل عمل حل تلاش کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم آبادی کے لحاظ سے دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہیں اور بڑھتی ہوئی آبادی کو خوراک کی فراہمی کے لیے پیداواری صلاحیت میں اضافہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا کہ قدرت نے پاکستان کو بہترین ماحولیاتی نظام، سازگار آب و ہوا اور دیگر عوامل سے نوازا ہے مگر روایتی طریقہ کاشت کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار ترقی یافتہ ممالک کی نسبت کافی کم ہے جس کے لئے زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے پیداوار میں اضافے کے حصول کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق 2050 میں پاکستان کی کی آبادی 30 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے 22 ہزار طلبہ نے 12 سے 20 نومبر تک صوبے کے پانچ ڈویژنوں میں نو روزہ کسانوں کے کھیتوں کا دورہ کیا جس کا مقصد گندم کی نئی ٹیکنالوجی کو فروغ دیتے ہوئے فی ایکڑ پیداوار میں کم از کم تین من تک اضافہ ممکن بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جدید رحجانات کو اپنا کر گندم کی پیداوار دوگنی کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ زرعی ترقی کے استحکام اور فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لیے حکومتی سطح پر موثر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک 10 ارب روپے کی خوردنی اشیاء درآمد کر رہا ہے جو کہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ ہماری تمام بڑی فصلیں گزشتہ دو دہائیوں سے جمود کا شکار ہیں جس کے لئے زرعی سائنسدانوں کو زرعی ٹیکنالوجی کاشتکار کی دہلیز پر فراہم کرنے کے لئے عملی اقدامات بروئے کار لانا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہالینڈ کی ایک یونیورسٹی کی وجہ سے زراعت کے شعبے میں زبردست ترقی وقوع پذیر ہوئی تھی۔ڈین کلیہ زراعت پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ ملک نے کہا کہ گندم کی بوائی مہم کے تحت 22000 طلباء نے حال ہی میں پانچ ڈویژنوں کا دورہ کیا جن میں گوجرانوالہ، لاہور، سرگودھا، فیصل آباد اور ساہیوال شامل ہیں تاکہ کاشتکار برادری کو گندم پر جدید تحقیق اور جدید رجحانات سے آگاہ کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جس کا مجموعی ملکی پیداوار میں حصہ 19.2 فیصد ہے،صدر پاکستان سائیٹوپیتھولوجیکل سوسائٹی طارق مختار نے کہا کہ پودوں کی بیماریوں پر قابو پانے کے لیے نئے اور جدید طریقوں کی ترقی پلانٹ پیتھالوجسٹ کے لیے ایک مستقل چیلنج ہے۔ پودوں کی مزاحمتی اقسام کو اگانا، پیتھوجین سے پاک بیج یا اسٹاک لگانا، بائیولوجیکل کنٹرول ایجنٹ کا استعمال اور پودوں میں ماحول دوست دواؤں کے استعمال کی مدد سے بیماریوں کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔ چیئرمین شعبہ پلانٹ پتھالوجی ڈاکٹر نذیر جاوید نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی کو برصغیر میں پہلی زرعی دانش گاہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور یہ 1906ء سے زراعت کی ترقی اور کاشتکاروں کی خوشحالی کے لئے تعلیم و تحقیق کی بدولت کاوشیں بروئے کار لا رہی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر شہباز طالب ساہی نے زرعی شعبے کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بھرپور کوششیں کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ملک کو بے پناہ وسائل سے نوازا گیا ہے تاہم جدید طریقہ کاشت اور وسائل کے عقلمندانہ استعمال کو فروغ دے کر زرعی ترقی اور کاشتکاروں کی خوشحالی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلی اور پودوں کی بیماریاں، میزبان پیتھوجین کے تعاملات، مالیکیولر پلانٹ پیتھالوجی، بائیو سیکیوریٹی اور پلانٹ قرنطینہ، پودوں کی بیماریوں کا انتظام، بیماریوں کے خلاف مزاحمت، بیج اور فصل کے بعد کی پیتھالوجی اور دیگر موضوعات شامل ہیں۔ ڈاکٹر منظور حسین سومرو نے کہا کہ کانفرنس قومی اور بین الاقوامی پلانٹ پیتھالوجسٹ کے لیے ایک نتیجہ خیز مباحثہ کا فورم ثابت ہو گی جس میں فیکلٹی، محققین، طلبہ، سائنسدانوں، کسانوں اور صنعت کاروں کو ایک چھت تلے بیماریوں کے حل کے لئے لائحہ عمل تیار کریں گے۔