جس کے لئے تیل دار اجناس کی کاشت کو فروغ دے کر نہ صرف ملکی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے بلکہ برآمد کر کے زرمبادلہ میں بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار زرعی یونیورسٹی فیصل آباد شعبہ فوڈ سائنس اور ملائیشین پام آئل بورڈ کے زیراہتمام انٹرنیشنل سیمینار بعنوان پام آئل ٹریڈسے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کیا۔ سیمینار کی صدارت کرتے ہوئے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا کہ فوڈ سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لئے جدید طریقہ کاشت کو اپنانے کے ساتھ ساتھ کاشت کاروں میں آگاہی کو عام کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پام آئل کا شمار دنیا کے مشہور ویجی ٹیبل آئل میں ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملائیشیا اور انڈونیشیا دنیا کے بڑے پام آئل پیدا کرنے والے ممالک ہیں۔ پاکستان کو پام آئل میں خودکفیل ہونے کے لئے ملائیشیا کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ملائیشین پام آئل بورڈ کے آفیشل جوہری منال نے بتایا کہ پاکستان کی خوردنی آئل کی کھپت 2000ء میں 2.7ملین میٹرک ٹن تھی جو کہ بڑھ کر 5.3ملین میٹرک ٹن ہو گئی ہے جس میں سے پچاس فیصد سے زیادہ کا حصہ پام آئل کا ہے۔ ڈین فوڈ سائنسز ڈاکٹر مسعود صادق بٹ نے کہا کہ پاکستان اپنی خوردنی تیل کی کھپت کا زیادہ تر حصہ درآمد کرتا ہے جس پر قابو پانے کے لئے خوردنی اجناس کی کاشت کو فروغ دینا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد ملائیشیا کے ساتھ مل کر تیل کے حوالے سے تحقیقات کا اجراء کرے گاتاکہ فوڈ سیکورٹی کے چیلنجز سے نبردآزما ہوا جا سکے۔ ڈائریکٹر جنرل نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاکٹر طاہر ظہور نے کہا کہ جامعہ زرعیہ ملک بھر میں ہیومن نیوٹریشن اینڈ ڈائیٹکس ڈگری کا اجراء کرنے والی پہلی درس گاہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کسانوں کے مسائل کے حل کے لئے جامعہ زرعیہ میں روزانہ کی بنیاد پر سیمینارز، کانفرنسز کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔