زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے سنڈیکیٹ روم میں شعبہ انٹومالوجی کے زیراہتمام منعقدہ سٹیک ہولڈرز سیشن کے مہمان خصوصی یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر محمد اشرف (ہلال امتیاز) نے اپنے خطاب میں کہاکہ ہرچند فال آرمی ورم سنڈی شمالی امریکہ‘ افریقہ اور ایشیاء پیسفک ممالک سے ہوتی ہوئی پاکستان میں ساہیوال‘ اوکاڑہ‘ میاں چنوں‘ ٹوبہ اور وسطی پنجاب کے اضلاع میں مکئی کی فصلوں پر حملہ آور ہے تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اسے ابتدائی مراحل میں ہی کنٹرول کر لیا جائے تو مستقبل میں فصلوں کو اس کی تباہ کاریوں سے محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ فال آرمی ورم مکئی کے بعد گنے‘ کپاس اور چاول کی فصلوں پر بھی حملہ آور ہوسکتی ہے لہٰذا اس دشمن سنڈی کے خلاف اسی مشنری جذبے اورولولے کی ضرورت ہے جس کو استعمال میں لاتے ہوئے ٹڈی دل کا تدارک ممکن ہوا۔ انہوں نے کہاکہ ملک کو اس وقت کرونا وائرس‘ ٹڈی دل اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جس سے زرعی شعبہ کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت بھی بری طرح متاثر ہورہی ہے لہٰذا وہ سمجھتے ہیں کہ فال آرمی ورم کے خلاف بروقت اور موثر کارروائی ہمیں مستقبل کے بڑے نقصان سے بچا سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ جامعات میں تعلیم و تحقیق کے ساتھ ساتھ کمیونٹی کو درپیش مسائل کا پائیدار حل بھی تلاش کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی نے حال ہی میں آرگینک ایگریکلچر اور ٹڈی دل ریسرچ و ڈویلپمنٹ سیل کے قیام کی منظوری دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دہائیوں سے بالعموم اور ٹڈی دل اور فال آرمی ورم سے بچاؤ کیلئے بالخصوص ہم ٹنوں کے حساب سے کیمیکل سپرے کر رہے ہیں جس کے بلاشبہ ماحولیات‘ حیاتیاتی تنوع اور انسانی و حیوانی صحت پر خطرناک نتائج سامنے آ رہے ہیں لہٰذا ہمیں موثراور دیرپا تدارک کیلئے قدرتی اور بائیولاجیکل کنٹرول کی حکمت عملی اپناناہوگی۔ انہوں نے کہا کہ این ڈی ایم اے سمیت تمام حکومتی ادارے یونیورسٹی میں جاری ریسرچ و ڈویلپمنٹ کی سرگرمیوں کو اسی لئے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ اس نے ٹڈی دَل کے لشکروں کی یلغار میں جنگی بنیادوں پر نہ صرف موزوں ترین پیسٹی سائیڈز اور ان کی مناسب مقدار اور مرکب کی نشاندہی کی بلکہ فیلڈ میں تھری اِن ون سپرے مشین پہنچانے کے ساتھ ساتھ موثر سپرے کے طریقہ کار سے بھی سینکڑوں کسانوں اور حکومتی ذمہ داران کو تربیت فراہم کی۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک میں ریسرچ و ڈویلپمنٹ کا شعبہ اگر کمزور ہوگا تو وہ ملک کبھی بھی معاشی ترقی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا لہٰذا وہ سمجھتے ہیں کہ یونیورسٹی میں تمام جملہ اُمور میں ریسرچ و ڈویلپمنٹ کی سرگرمیوں کو پوری توانائیوں سے آگے بڑھایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کاروباری مفاد سے بالا تر ہوکر ملک کے غذائی تحفظ اور زرعی شعبہ کی ترقی کو ذہن میں رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ چیئرمین شعبہ حشریات ڈاکٹر سہیل احمد نے بتایا کہ ان کی ٹیموں نے فال آرمی ورم سے متاثرہ تمام اضلاع کا تفصیلی دورہ کرکے رپورٹ جمع کروائی ہے جس کی روشنی میں پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت کے ساتھ رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہرچند معاملات کو قابو میں لانے کیلئے زیادہ تاخیر نہیں ہوئی تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ اس پر ابتدائی مراحل میں ہی قابو پانے کیلئے کاوشیں بروئے کار لائی جائیں۔ ڈاکٹر عامر رسول نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ یونیورسٹی نے فال آرمی ورم کی موجودگی کو نوٹ کرتے ہوئے ملک بھر میں سب سے پہلے سٹیک ہولڈرز سیشن منعقد کروایا تاکہ تمام متعلقین کی مشاورت اور آراء کی روشنی میں قابل عمل سفارشات حکومت تک پہنچائی جا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ مخصوص سنڈی مکئی کی کوالٹی کو بری طرح متاثر کرتی ہے لہٰذا ہمیں اس کے موثر تدارک کیلئے سپرے کی تکنیک میں بھی تبدیلی لانا ہوگی۔ ان کا کہنا تھاکہ اس سنڈی کا حملہ بہاریہ مکئی کے مقابلہ میں گرمیوں میں کاشت کی جانیوالی مکئی پر زیادہ نوٹ کیا گیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ مسلسل مانیٹرنگ کے ساتھ ساتھ پیسٹ سکاؤٹنگ کو بھی یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے اس کے تدارک کیلئے ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ پیسٹی سائیڈز کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ کیبی‘ کوارٹیوا‘ سنجنٹا‘ اور بائر اس کے پائیدار تدارک کیلئے ریسرچ و ڈویلپمنٹ میں مصروف ہیں لہٰذا وہ اُمید رکھتے ہیں کہ جلد ہی اس سے نجات ممکن ہوگی۔ توصیف الحق نے کہاکہ ہرچند لشکری سنڈی کی یہ قسم ایشیاء پیسی فک کے تقریباً تمام ممالک میں فصلوں پر حملہ آور ہے لہٰذاماضی میں متاثرہ ممالک کی حکمت عملی کو دیکھتے ہوئے اسے ضروری تبدیلیوں کے ساتھ پاکستان میں دہرانے پر بھی غور کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں درپیش ایسی ایمرجنسی کی صورتحال میں حکومتیں معمول سے ہٹ کر آگے بڑھتی ہیں اور ہنگامی صورت میں غیرمعمولی اقدامات اُٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتی لہٰذا حکومت کو فوری طور پر فال آرمی ورم پر قابو پانے کیلئے پیسٹی سائیڈز کی منظوری کے حوالے سے غیرضروری تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ میاں ریحان الحق نے بتایا کہ فروٹ فلائی امردو‘ ترشاوہ پھلوں‘ آم کے بعد اب کھجور پر بھی حملہ آور ہے لہٰذا اس کے تدارک کیلئے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ممبر اپٹما و ایوان صنعت و تجارت کے نوجوان رہنما رانا احتشام جاوید نے بتایا کہ رفحان کے بعد مقامی انڈسٹری کے متعدد ادارے ماحول دوست توانائی کیلئے مکئی کے تکے کو استعمال میں لاتے ہیں لیکن مکئی پر فال آرمی ورم کے حملے کی صورت میں متبادل ذرائع سے توانائی کے حصول سے ان کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہونے کا خطرہ ہے لہٰذا اس دشمن سنڈی کے خاتمہ کیلئے موثر حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی۔ جبار احمد بھٹی نے کہا کہ 12فیصد مکئی سائلیج کیلئے استعمال میں لائی جاتی ہے لہٰذا اس پر سپرے کیلئے موزوں وقت کا تعین بھی ضروری ہے تاکہ جانوروں کو سپرے سے متاثرہ مکئی کے استعمال سے دور رکھا جا سکے۔ سٹیک ہولڈرز سیشن سے ڈاکٹر منصور الحسن ساہی‘ ڈاکٹر جلال عارف‘ ڈاکٹر فاروق احمد‘ سرفراز تارڑ‘ ڈاکٹر جام نذیر احمد‘ ڈاکٹر ذوالنورین‘ میاں خاور شفیق‘ محمد طارق اور سیڈ کمپنیوں کے نمائندوں نے بھی اظہار خیال کیا۔