جن سے نبردآزما ہونے کیلئے کیبی کے پلیٹ فارم سے پلانٹ پتھالوجی‘ حشریات اور سوشل سائنسز کے ماہرین کا کنسورشیم ترتیب دیا جانا چاہئے جو نہ صرف ان کے حوالے سے نچلی سطح پر عوام میں شعور بیدار کر یں بلکہ ان کے تدارک کیلئے بھی کامیاب حکمت عملی سامنے لا سکیں۔ یہ باتیں انہوں نے کیبی اور انسٹی ٹیوٹ آف ایگریکلچرل ایکسٹینشن‘ ایجوکیشن و رورل ڈویلپمنٹ کے اشتراک سے گاجربوٹی سے آگاہی اور اس میں تحقیقاتی امکانات کے حوالے سے منعقد ہ سیمینار سے مہمان خصوصی کے طور پر خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ نیو سینٹ ہال میں منعقدہ پروگرام سے خطاب میں ڈاکٹر محمد اشرف نے کہا کہ ہرچندکیبی اور زرعی یونیورسٹی گاجر بوٹی کے آگاہی پروگرام میں کامیابی سے اپنے اہداف کی جانب بڑھ رہے ہیں تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ فارم آرمی ورم بھی فصلوں خصوصاً مکئی کی پیداوار کیلئے بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے لہٰذا اس سے آگاہی اور روک تھام کیلئے یونیورسٹی ماہرین کو اپنی تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ زراعت سمیت تمام شعبہ جات میں کسی بھی مسئلے یا مشکل کے پائیدار حل کیلئے ریسرچ و ڈویلپمنٹ کلیدی کردار ادا کرتی ہے لہٰذا وقت آ گیا ہے کہ گاجر بوٹی اور فال آرمی ورم کے موثر خاتمے کیلئے ریسرچ و ڈویلپمنٹ میں سرمایہ کاری کی جائے۔ انہوں نے بتایا کہ ٹڈی دل پر تحقیق کیلئے جتنا کام زرعی یونیورسٹی کے ریسرچ و ڈویلپمنٹ سیل میں ہورہا ہے ملک کے کسی دوسرے ادارے میں نہیں ہورہا اور وہ توقع رکھتے ہیں کہ یونیورسٹی کے ماہرین ٹڈی د ل کے موثر تدارک کیلئے نسخہ کیمیاضرور متعارف کروائیں گے۔انہوں نے کیبی کی طرف سے گاجر بوٹی کی بڑھوتری روکنے اور اسے ختم کرنے کے حوالے سے زائیگوگراماکیڑا ریلیز کرنے کے اقدام کو سراہتے ہوئے شعبہ حشریات کے ماہرین پر زور دیا کہ اس کیڑے کی پرورش کیلئے کام کریں تاکہ اسکی زیادہ تعداد پرور ش پانے سے گاجر بوٹی کی تلفی میں مدد مل سکے۔ ڈاکٹر محمد اشرف نے گاجر بوٹی کے مثبت پہلوؤں اور اثرات کا جائزہ لینے کیلئے بھی تحقیق کی ضرورت پر زور دیا۔کیبی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالرحمن نے بتایا کہ چند برس پہلے تک گاجر بوٹی سے پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے شمالی علاقہ جات متاثر تھے لیکن اب اس زہریلی بوٹی نے پورے ملک کو اپنی پلیٹ میں لے لیا ہے جس سے زرعی پیداوار میں 40فیصد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ بیرونی ممالک کے بعد اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں اس کے انسانی و حیوانی صحت کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تنوع اور زرعی پیداوار پر اثرات کا جائزہ لیا جائے تاکہ مقامی اعدادو شمار کی روشنی میں پالیسی مرتب کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ گاجر بوٹی کے چارے کے طو رپر استعمال سے جانوروں کے دودھ اور گوشت میں مسائل کے ساتھ ساتھ ان کے چہرے اور منہ پر الرجی کے واقعات بڑھ رہے ہیں لہٰذا وہ یقین دلاتا ہے کہ گاجر بوٹی اور فال آرمی ورم پر مختلف حوالوں سے تحقیق کیلئے ان کا ادارہ وسائل فراہم کرے گا۔ انہوں نے گاجر بوٹی کے حوالے سے یونیورسٹی سے شروع کئے گئے آگاہی پروگرام کی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی کو سراہتے ہوئے بتایا کہ کیبی نے اس پروگرام کو مزیدتوسیع کی منظوری دے دی ہے تاکہ گاجر بوٹی کے حوالے سے پیغام نچلی سطح پر پہنچایا جاسکے۔ انسٹی ٹیوٹ آف ایگریکلچرل ایکسٹینشن‘ ایجوکیشن و رورل ڈویلپمنٹ کے ایسوسی ایٹ پروفیسرو پرنسپل انویسٹی گیٹر ڈاکٹر اعجاز اشرف گل نے بتایاکہ آسٹریلیا میں گاجر بوٹی کو 11مختلف بیالوجیکل طریقوں سے کنٹرول کیا جا رہا ہے تاہم ہمیں مقامی حالات کے مطابق اس کیلئے مناسب طریقہ کار اختیار کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ گاجر بوٹی کے چارے میں استعمال سے سینکڑوں جانور ہلاک ہوچکے ہیں لہٰذا اس کا جانوروں کے چارے میں استعمال فوری طو رپر روکا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گاجر بوٹی پر ریسرچ فنڈنگ کے بے پناہ مواقع موجود ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ سائنس دان اپنی متاثر کن ریسرچ پروپوزل کے ساتھ سامنے آئیں۔ انہوں نے بتایا کہ گاجر بوٹی کے حوالے سے شعور اجاگرکرنے کیلئے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا نے ان کا بھرپور ساتھ دیا ہے اور وہ چاہیں گے کہ اس پیغام کو مزید لوگوں تک پہنچانے کیلئے بھی انہیں میڈیا کا ساتھ میسر رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی کام کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ اس کی شوکیسنگ اور تشہیر انتہائی ضروری ہے اور وہ پرعزم ہیں کہ پراجیکٹ کے اگلے فیز میں وہ اپنے کام کیلئے مزید توانائیاں صرف کریں گے۔ تقریب سے ڈاکٹر خالد محمودچوہدری ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف ایگریکلچرل ایکسٹینشن‘ ایجوکیشن و رورل ڈویلپمنٹ‘ڈاکٹر نائمہ نواز‘ ڈاکٹر عمیر صفدر اور محمد کاظم نے بھی خطاب کیا۔