کہ پاکستان کے غذائی تحفظ کو صحرائی مکڑی کی صورت میں دوسرے کرونا وائرس کا سامنا ہے جسے ختم کرنے کیلئے فوری طور پر مزید اقدامات ناگزیر ہیں۔ یہ باتیں انہوں نے چیئرمین شعبہ حشریات ڈاکٹر منصور ساہی‘ پروفیسرڈاکٹر سہیل احمد‘ ڈاکٹر عامر رسول‘ڈاکٹر صغیر‘ریسرچ سکالر احمد وقاص اور سیکرٹری محمد جمیل کے ہمراہ ضلع جھنگ کی تحصیل اٹھارہ ہزاری میں موضع ماچھی وال‘ کوٹ شاکر‘ شیرگڑھ اور ضلع بھکر کی تحصیل منکیرہ کے موضع ڈھنگانہ‘ بریری میں ٹڈی دل کے خاتمہ کیلئے کئے جانیوالے حکومتی اقدامات کا عملی جائزہ لینے اور بعد ازاں کیمپ آفس میں بریفنگ کے دوران کہیں۔
ڈاکٹر محمد اشرف نے بتایا کہ یونیورسٹی میں ٹڈی دل پر ریسرچ کیلئے ملک کا پہلا ریسرچ و ڈویلپمنٹ سیل قائم کر دیا گیا ہے جہاں اس کے موثر تدارک کیلئے مختصر و طویل المدت حکمت عملی کے ساتھ ساتھ تمباکو‘ رنڈ‘ سفیدے‘ سنتھا اور دوسرے پودوں کے عرق کو استعمال میں لاکر ایسے بائیو پیسٹی سائیڈزپر کام کیا جا رہا ہے جو مہنگے درآمدی کیمیکلز کے مقابلے میں انتہائی سستے‘ موثر اور ماحول دوست ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ ٹڈی دل کی صورت میں ہمارے غذائی استحکام کو بڑے چیلنج کا سامنا ہے جس کے متعدد جھنڈ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخواہ اور پنجاب پر گزشتہ کئی مہینوں سے حملہ آور ہیں اور ان کے انڈوں سے نکلنے والے بچے بھی اب بالغ ہوکرنئی نسل کشی میں مصروف ہیں لہٰذا ایسی خطرناک صورتحال سے نبردآزما ہونے کیلئے جنگی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر خدانخواستہ ٹڈی دل نے صحرائی علاقوں سے میدانی علاقوں میں کراپ زون کا رخ کر لیا تو اس سے ایک طرف ملک کے غذائی استحکام کو نئے چیلنجز کا سامنا ہوگا تو دوسری جانب گنجان آباد علاقوں میں سپرے کرنا جانی نقصان کیساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی اور حیاتیاتی تنوع کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتا ہے لہٰذا وہ سمجھتے ہیں کہ اس دشمن مکڑی کے صحرائی علاقوں میں فوری خاتمہ کیلئے مزید افرادی قوت اور وسائل مہیا کئے جانے چاہئیں۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ یونیورسٹی ماہرین ٹڈی دل کے خاتمہ میں شامل فیلڈ اراکین کی جدید خطوط پر تربیت کریں گے
تاکہ زہریلے کیمیکلزاستعمال کرتے ہوئے وہ خود کو تمام مضراثرات سے بچا سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی انجینئرز نے ٹریکٹر سے منسلک ایسی سپرے مشین تیار کی ہے جو اپنے ہدف کو 50فٹ تک بھی ٹارگٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس میں مزید تبدیلیوں کے ساتھ اس کی افادیت کو مزید بڑھایا جا سکے گا۔انہوں نے کہا کہ ہرچند صوبائی محکمہ زراعت‘ وفاقی وزرات فوڈ سیکورٹی و ریسرچ کے تمام ذیلی ادارے‘ این ڈی ایم اے‘ پی ڈی ایم اے اور پاک فوج کے جوانوں کی مربوط حکمت عملی سے فیلڈ آپریشن جاری ہے تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ ٹڈی دل کی دوسری اور تیسری نسل کے ممکنہ حملوں اور اثرات کے تناظر میں اس کوراڈی نیشن کو مزید بہتر کیا جانا چاہئے۔ اس موقع پر ایگریکلچرآفیسرپلانٹ پروٹیکشن عمران فرازنے بتایا کہ انہیں 135ہینڈ آپریٹنگ مشینوں‘ 4جیٹو‘13 پلنجر ز‘ 10ٹریکٹر اور 19گاڑیوں کی سہولت کے ساتھ ساتھ افرادی قوت اور فوجی جوانوں کی مدد حاصل ہے جن کے ساتھ وہ سرویلنس کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ادویات کی چنداں کمی نہیں لیکن دستیاب افرادی قوت کے بہت سے افراد گزشتہ کئی ہفتوں سے ریگستانی علاقوں میں دن رات زہریلے کیمیکلز کے ساتھ کام کرتے ہوئے بیمار ہوچکے ہیں لہٰذا اگر انہیں مزیداور تازہ دم افرادی قوت دستیاب ہوتو وہ اپنی سرگرمیوں کو مزید توانائی کے ساتھ آگے بڑھا سکتے ہیں۔
وائس چانسلرڈاکٹر محمد اشرف نے‘ عمران فراز سمیت ایگری کلچرآفیسراظہر عباس اور اسد آفتاب اور ان کی فیلڈ ٹیم کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے انہیں ہدایت کی کہ تمام حفاظتی انتظامات کے ساتھ میدان عمل میں اتریں کیونکہ زہریلے کیمیکلزکے استعمال کے دوران معمولی کوتاہی ان کی صحت اور زندگی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔