یونیورسٹی میں اورک اور پنجاب حکومت کے اشتراک سے محکمہ زراعت (ریسرچ ونگ) کے افسران کیلئے ایک مہینے پر مشتمل ورکشاپ میں شرکاء کو پراجیکٹ مینجمنٹ‘ پیڈا‘ اے سی آرز‘ خواتین کی ہراسگی‘ پیپرا رولز‘ آڈٹ اینڈ فنانس سمیت ڈویلپمنٹ و نان ڈویلپمنٹ پراجیکٹس کی تجاویز سے لیکر حتمی تکمیل تک کے مراحل سے آگاہ کیا گیا۔ نیو سینٹ ہال میں شرکاء میں سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے کی تقریب کے مہمان خصوصی یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر محمد اشرف (ہلال ا متیاز) تھے جبکہ ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر عابد محمود مہمان اعزاز کے طو رپر تقریب کا حصہ تھے۔ شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد اشرف نے کہا کہ تربیتی ورکشاپ کے دوران یونیورسٹی انتظامیہ نے بہترین ٹرینرزکے ذریعے شرکاء کو ان تمام اُمور سے خاطر خواہ جانکاری کی کوشش کی ہے جن سے ایک انتظامی افسر ہوتے ہوئے انہیں واسطہ پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک بہترین پروفیشنل ہوتے ہوئے پلاننگ کمیشن سے کسی بھی ترقیاتی یا غیرترقیاتی پراجیکٹ کی منظوری کیلئے پانچ طرح کی دستاویزات تیار کرنا ہوتی ہیں لہٰذا ان تما م اُمور سے آگاہی آپ کو ایک بہترین منتظم بنانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپرا رولز‘ پیڈا ایکٹ‘ خواتین کی ہراسگی سے متعلق قانون سازی سمیت ادارہ جاتی قانونی پہلوؤں سے بھی خود کو مہمیز کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے لہٰذا وہ چاہیں گے کہ تربیتی ورکشاپ کے بعد شرکاء مذکورہ تمام اُمور میں خود کو ماہر بنائیں تاکہ شفاف پروکیورمنٹ کے ساتھ ساتھ ادارہ جاتی معاملات میں بھی بہتر گورننس ان کا طرہ امتیاز ہو۔انہوں نے کہا کہ فنانس‘ ایڈمنسٹریٹو مینجمنٹ اور ای گورننس ایسے معاملات ہیں جن میں تربیت اور بہترین صلاحیت کے بغیر جدید دنیا میں نہ تو سرکاری ادارے اپنے اہداف میں کامیاب ہوسکتے ہیں اور نہ پرائیویٹ سیکٹر میں ان اُمور سے لابلدافراد کی گنجائش ہوگی یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے پہلے مرحلے میں وائس چانسلر‘ رجسٹرار اور ٹریژرآفس کوای گورننس پر منتقل کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی علوم زراعت کی عظیم و قدیم مادرِ علمی ہوتے ہوئے چھوٹے کاشتکاروں کیلئے پیداواری لاگت کم کرنے اور زراعت کو پھر سے ایک پرکشش پیشہ بنانے کیلئے وفاقی و صوبائی سطح پر کسان کی موثر وکالت کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چین اور بھارت اپنے جی ڈی پی کابالترتیب0.62اور 0.37فیصد حصہ زرعی تحقیق پر خرچ کررہے ہیں جبکہ پاکستان میں یہ شرح0.1فیصد سے بھی کم ہے جس میں خاطر خواہ اضافے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ا ن کے خیال میں پیشہ وارانہ اُمور میں مصروف زرعی سائنس دانوں اور اساتذہ کیلئے ہر تین سال کے بعد فیلڈ میں آنیوالے نئے حالات سے جانکاری کیلئے ریفریشر کورس یا انٹرن شپ کوپالیسی کا حصہ بنایا جائے تاکہ وہ خود کو جدید ترین رجحانات اور حالات سے باخبر رکھ سکیں۔ انہوں نے ترقی یافتہ ممالک میں جاری پری سیئن ایگریکلچر کے فلسفہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج ٹیکنالوجی کے موثر استعمال کی بدولت ہم پانی‘ کھاد اور کیمیکلز سمیت زرعی مداخل کا ہر دانہ و قطرہ بچاسکتے ہیں جس سے پیداواری لاگت کو خاصا کم کیا جا سکتا ہے لہٰذا ہمیں چھوٹے کسان کیلئے سستی زرعی مشینری اور ٹیکنالوجی کو عام کرنے کیلئے زرعی توسیع کے سٹاف کی مدد کرنا ہوگی۔ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر عابد محمود نے کہا کہ وہ سینئر افسران کیلئے تربیتی ورکشاپ کو کپسٹی بلڈنگ کے ساتھ ساتھ کپسٹی شیئرنگ سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ ملازمت میں ایک عرصہ گزارنے کے وجہ سے وہ بھی اپنے اندر تجربہ‘ مشاہدہ اور معاملات کوخوش اسلوبی سے انجام تک پہنچانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں لہٰذا ایسی ورکشاپ سے شرکاء کے ساتھ ساتھ ٹرینرز کو بھی بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب کے محکمہ زراعت میں گریڈ 17سے اوپر ترقیوں کیلئے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن (نیپا) کی طرز پر اس ٹریننگ کو بھی لازم قرار دیا گیا ہے لہٰذاتربیتی ورکشاپ کو پوری سنجیدگی اور یکسوئی کے ساتھ مکمل کریں۔ انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ تربیتی ورکشاپ سے شرکاء کو اپنے پیشہ وارانہ اُمور کی بہتر انجام دہی میں مدد ملے گی۔ ورکشاپ سے ڈائریکٹر اورک ڈاکٹر ظہیر احمد ظہیرنے بتایا کہ شرکاء کو ایک مہینے کی ٹریننگ ورکشاپ میں کثیر الجہت تربیت فراہم کی گئی ہے تاکہ وہ ایک اچھے اور مثالی منتظم کے طور پر اپنے اُمور سرانجام دے سکیں۔ ڈپٹی ڈائریکٹر اورک ڈاکٹر عبدالرشید ملک نے کہا کہ ورکشاپ میں 52شرکاء پر مشتمل پہلے فیز کے بعد اتنی ہی تعداد میں مزید افسران کی دوسرے مرحلے کیلئے رجسٹریشن مکمل کر لی گئی ہے جس کے بعد گریڈ 17کے افسران کو ورکشاپ کا حصہ بنایا جائیگا۔انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی میں ڈائریکٹوریٹ آف ٹریننگ کے قیام کی تجویز زیرغور ہے جس کے ذریعے صوبے کے تما م اداروں میں کام کرنیوالے افسران و ملازمین کی تربیت ممکن ہوسکے گی۔