یونیورسٹی میں اورک اور ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ کے اشتراک سے محکمہ زراعت (ریسرچ ونگ) کے افسران کیلئے ڈی ایل سی ٹو میں منعقدہ ورکشاپ کے افتتاحی سیشن کے مہمان خصوصی یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر محمد اشرف (ہلال ا متیاز) تھے جبکہ ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر عابد محمود مہمان اعزاز کے طو رپر تقریب کا حصہ تھے۔ شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد اشرف نے کہا کہ انڈرائیڈ موبائلز کی بڑھتی ہوئی تعداد‘ دیہی سطح پر انٹرنیٹ کی رسائی‘سوشل میڈیا اور تیزی سے پھیلتی ہوئی ڈیجیٹل نیٹ ورکنگ کی وجہ سے عالمی سطح پر زراعت ایک ایسے نئے ایرینا میں داخل ہوگئی ہے جس کی بدولت پوری دنیا میں کی جانیوالی تحقیقات اور سامنے آنیوالی نئی ٹیکنالوجی سے لوگ لمحوں میں متعارف ہورہے ہیں لہٰذا ضرورت ہے کہ ایک طرف پاکستانی سائنس دان تو دوسری جانب دیہی سطح پر کاشتکاری میں مصروف کسانوں کواس نئے رجحان سے ہم آہنگ ہونے کیلئے تیار کیا جا ئے۔ انہوں نے کہا کہ فنانس‘ ایڈمنسٹریٹو مینجمنٹ اور ای گورننس ایسے معاملات ہیں جن میں تربیت اور بہترین صلاحیت کے بغیر جدید دنیا میں نہ تو سرکاری ادارے اپنے اہداف میں کامیاب ہوسکتے ہیں اور نہ پرائیویٹ سیکٹر میں ان اُمور سے لابلدافراد کی گنجائش ہوگی یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے پہلے مرحلے میں وائس چانسلر‘ رجسٹرار اور ٹریژرآفس کوای گورننس پر منتقل کرتے ہوئے سٹاف کی ابتدائی تربیت کا مرحلہ مکمل کر لیا ہے اور بہت جلد ان دفاتر کو ای گورننس پر منتقل کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی علوم زراعت کی عظیم و قدیم مادرِ علمی ہوتے ہوئے چھوٹے کاشتکاروں کیلئے پیداواری لاگت کم کرنے اور زراعت کو پھر سے ایک پرکشش پیشہ بنانے کیلئے وفاقی و صوبائی سطح پر کسان کی موثر وکالت کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چین اور بھارت اپنے جی ڈی پی کابالترتیب0.62اور 0.37فیصد حصہ زرعی تحقیق پر خرچ کررہے ہیں جبکہ پاکستان میں یہ شرح0.1فیصد سے بھی کم ہے جس میں خاطر خواہ اضافے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ا ن کے خیال میں پیشہ وارانہ اُمور میں مصروف زرعی سائنس دانوں اور اساتذہ کیلئے ہر تین سال کے بعد فیلڈ میں آنیوالے نئے حالات سے جانکاری کیلئے ریفریشر کورس یا انٹرن شپ کوپالیسی کا حصہ بنایا جائے تاکہ وہ خود کو جدید ترین رجحانات اور حالات سے باخبر رکھ سکیں۔ انہوں نے ترقی یافتہ ممالک میں جاری پری سیئن ایگریکلچر کے فلسفہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج ٹیکنالوجی کے موثر استعمال کی بدولت ہم پانی‘ کھاد اور کیمیکلز سمیت زرعی مداخل کا ہر دانہ و قطرہ بچاسکتے ہیں جس سے پیداواری لاگت کو خاصا کم کیا جا سکتا ہے لہٰذا ہمیں چھوٹے کسان کیلئے سستی زرعی مشینری اور ٹیکنالوجی کو عام کرنے کیلئے زرعی توسیع کے سٹاف کی مدد کرنا ہوگی۔ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر عابد محمود نے کہا کہ سوشل میڈیا کے آنے سے گزشتہ چند برسوں کے دوران دنیا بھر میں استعمال کی جانیوالی زرعی ٹیکنالوجی کے مختلف پہلوؤں سے دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ زرعی سائنس دان بھی مستفید ہورہے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایسی ٹیکنالوجی کو مقامی ماحول سے ہم آہنگ کرنے کیلئے اس کی ریورس انجینئرنگ کر لی جائے تو چھوٹے کاشتکار کی جملہ ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب کے محکمہ زراعت میں گریڈ 17سے اوپر ترقیوں کیلئے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن (نیپا) کی طرز پر اس ٹریننگ کو بھی لازم قرار دیا گیا ہے لہٰذاتربیتی ورکشاپ کو پوری سنجیدگی اور یکسوئی کے ساتھ مکمل کریں۔ انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ تربیتی ورکشاپ سے شرکاء کو اپنے پیشہ وارانہ اُمور کی بہتر انجام دہی میں مدد ملے گی۔ ورکشاپ سے ڈائریکٹر اورک ڈاکٹر ظہیر احمد ظہیر‘ یونیورسٹی کے ڈائریکٹر پروکیورمنٹ عمر سعید قادر ی نے فنانشل مینجمنٹ‘ مولانا اسرار احمد معاویہ نے کام کی جگہ پر اخلاقیات جبکہ عبدالوحید نے پیڈا ایکٹ کے مختلف پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ ڈپٹی ڈائریکٹر اورک ڈاکٹر عبدالرشید ملک نے کہا کہ ورکشاپ میں 52شرکاء پر مشتمل پہلے فیز کے بعد اتنی ہی تعداد میں افسران کو دوسرے مرحلے میں تربیت فراہم کی جائے گی جس کے بعد گریڈ 17کے افسران کو ورکشاپ کا حصہ بنایا جائیگا۔انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی میں ڈائریکٹوریٹ آف ٹریننگ کے قیام کی تجویز زیرغور ہے جس کے ذریعے صوبے کے تما م اداروں میں کام کرنیوالے افسران و ملازمین کی تربیت ممکن ہوسکے گی۔