کہ جرمنی تعلیم‘ توانائی‘ تجارت اور ہائر ایجوکیشن کے شعبوں میں پاکستان کے ساتھ باہمی تعاون کو نئی بلندیوں سے ہمکنار کرنے کیلئے پرعزم ہے۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر محمد اشرف (ہلال امتیاز) اور اعلیٰ افسران کے ساتھ میٹنگ روم منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جرمن سفیر نے کہا کہ ہرچند گزشتہ کچھ برسوں سے پاکستان میں زرعی شعبہ جمود کا شکار پیداوار اور سکڑتے ہوئے منافع کی وجہ سے کاشتکار کے حوالے سے زیادہ پرکشش نہیں رہا تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کاشتکاروں کی پیداواری لاگت میں کمی کیلئے کاوشیں بروئے کار لائی جائیں تو یقینا بہتری کا راستہ ہموار کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان جیسا ملک جس کی معیشت زراعت ہی کے گرد گھومتی ہے‘ کیلئے اس میں اصلاحات متعارف کروانا اہم سنگ میل ہوگا اور وہ توقع رکھتے ہیں کہ عمران خان کی قیادت میں یہ سیکٹر پھر سے ایک پرکشش اور منافع بخش کاروبار بن کر ملک کی معاشی رگوں میں نئے اور توانا خون کی فراہمی ممکن بنائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ جرمنی پاکستان میں سولرٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر متعدد پروگرامز میں پیش رفت کر رہا ہے جس سے پاکستان میں ماحول دوست اور سستی توانائی کو عام کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی اور پانی کے کم ہوتے ہوئے وسائل بھی ایک بڑے چیلنج کی صورت میں موجود ہیں تاہم عمران خان کی حکومت جس تندہی سے ملک کے گرین کور میں اضافہ کیلئے کوشاں ہے وہ یقینا لائق تحسین ہے۔ ملک میں زرعی ترقی اور ریسرچ و ڈویلپمنٹ میں زرعی یونیورسٹی ماہرین کے کردار کو سراہتے ہوئے جرمن سفیر نے بتایا کہ پاکستان کے سینکڑوں طلبہ جرمن جامعات میں زیرتعلیم ہیں اور جرمن پاکستان ایلومنائی نیٹ ورک سے عوام کی سطح پر دونوں ممالک کے تعلقات میں گرمجوشی کی راہیں ہموار ہورہی ہیں۔ انہوں نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے پلاسٹک بیگز کی تیاری‘فروخت اور استعمال پر پابندی کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس پر عملدرآمد سے ماحول میں بہتری کیلئے سازگار حالات میسر آئیں گے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر محمد اشرف نے بتایا کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں نے دوسرے اُمور کے ساتھ پھل‘ سبزیوں اور زرعی اجناس کی کاشت سے برداشت تک کے پورے شیڈول کو متاثر کیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ امسال کپاس کی پیداوار میں لگ بھگ چالیس لاکھ گانٹھوں کی کمی ملک کی مجموعی شرح نمو کو خاص طور پر متاثر کر سکتی ہے جس سے اس پورے سلسلہ میں شامل افرادو خاندانوں کی معاشی حالت میں مشکلات بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی ماہرین نے پنجاب حکومت کے ساتھ مل کر صوبے کیلئے ایگرو ایکالوجیکل زونز کی از سر نو ترتیب پر غیرمعمولی پیش رفت کی ہے جس سے پھل‘ سبزی اور زرعی اجناس کیلئے موزوں ترین مخصوص علاقوں میں متعلقہ انڈسٹری کا قیام یقیناسود مند ثابت ہوگا۔انہوں نے کہا کہ وہ یونیورسٹی کے پلیٹ فارم سے کسانوں کو بہترین کوالٹی کے بیجوں کی فراہمی کیلئے پرعزم ہیں اور چاہتے ہیں کہ یونیورسٹی میں سیڈ پراسیسنگ یونٹ کا قیام فوری عمل میں لایا جائے۔ اجلاس میں ڈین سوشل سائنسز ڈاکٹر محمود رندھاوا‘ ڈین انجینئرنگ ڈاکٹر اللہ بخش‘ ڈاکٹر ظہیر احمد ظہیر‘ ڈاکٹر یاسین‘ ڈاکٹر اشفاق چٹھہ‘ ڈاکٹر سید آفتاب واجد‘ ڈاکٹر ثاقب اور ڈاکٹر نبیل نیازی بھی موجود تھے۔
زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر محمد اشرف (ہلال امتیاز) نے انتظامی پوزیشنوں پر تبدیلی کے احکامات جاری کئے ہیں جس کے مطابق انسٹی ٹیوٹ آف سوائل و انوائرمنٹل سائنسز کے پروفیسرڈاکٹر محمد یاسین کو طلبہ کے اقامتی ہاسٹلز کے انتظامی ڈھانچے میں چیف ہال وارڈن مقرر کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں شعبہ ایگرانومی کے ایسوسی ایٹ پروفیسرز ڈاکٹر اعجاز وڑائچ اور ڈاکٹر محمد طاہر کو بالترتیب ڈائریکٹر گریجوایٹ سٹڈیز اور ڈائریکٹر فارمز مقرر کیا گیا ہے۔ تینوں انتظامی افسران نے اپنی نئی ذمہ داریوں کا چارج سنبھال کر اس عزم کے ساتھ کام شروع کر دیا ہے کہ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے تمام صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے اور ان پر یونیورسٹی قیادت کی جانب سے جس اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے وہ اس پر پورا اترنے کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔