جس کے استعمال اور فروغ سے ایک طرف استعمال میں نہ آنیوالے پھل‘ سبزی اور انسانی خوراک سمیت زرعی اجناس کی باقیات کو ٹھکانے لگانے کی مشکل کا پائیدار حل نکل سکے گا تو دوسری جانب صارفین کو صحت افزاء نامیاتی خوراک میسر آئے گی جس سے ان کی صحت اور کارکردگی میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ یہ باتیں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر محمد اشرف (ہلال امتیاز) نے شعبہ ایگرانومی میں پلانٹ اینڈ مائیکروبیل ایکالوجی لیب کے زیراہتمام دو روزہ بین الاقوامی سیمینار کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ یونیورسٹی کے کیس آڈیٹوریم میں آرگینک ایگریکلچرمیں ورمی کمپوسٹ فرٹیلائزرکے کردار پر منعقدہ سیمینار و ٹریننگ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد اشرف نے کہا کہ ہرچندکیمیکل فرٹیلائزر کے ہوش ربا استعمال اور رزعی رقبوں پر کاشتکاری کے بڑھتے ہوئے دباؤ سے زمین کی ذرخیزی میں بتدریج کمی واقع ہورہی ہے تاہم اسے برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اگر پیداوار میں اضافے اور صارفین کو ماحول دشمن کیمیکل فرٹیلائزرسے پاک صاف ستھری آرگینک خوراک کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے ورمی فرٹیلائزر کمپوسٹ کی تیاری اور فروغ پر توجہ دی جائے تو درآمدی کیمیکل فرٹیلائزرپر اُٹھنے والے اربوں روپے بچائے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چین میں بائیو ہیلتھی ایگریکلچرکے فلسفہ کو آگے بڑھاتے ہوئے پھل‘ سبزیوں‘ جانوروں کے فضلہ اور زرعی اجناس کی باقیات کوجمع کرکے زمینی کیڑے کے ذریعے گلنے سڑنے کے عمل سے گزار کرتیار کئے جانیوالے ورمی کمپوسٹ فرٹیلائزرکوآرگینک ایگریکلچرکے طور پر متعارف کروایا جا رہا ہے جس میں پیدا ہونیوالے پھل‘ سبزی اور زرعی اجناس کو نامیاتی پہچان کے ساتھ پرکشش قیمت پر مارکیٹ کیا جا رہا ہے۔ ورمی کمپوسٹ فرٹیلائزر کو نئے سبز انقلاب سے تعبیر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں صرف اپنے ماحول سے مطابقت رکھنے والے زمینی کیڑے (ارتھ ورم) کی نشاندہی کرنی ہے جس کے ذریعے ورمی کمپوسٹ فرٹیلائزر کی تیاری اور زمین سے ہم آہنگی ممکن بناکر کیمیکل فرٹیلائزر پر اُٹھنے والے سالانہ اربوں روپے بچانے کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے شعبہ ایگرانومی میں ورمی کمپوسٹ فرٹیلائزر کی تیاری میں شامل ڈاکٹر زبیر اور ان کی ٹیم کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے یقین دلایا کہ اس ٹیکنالوجی کو عام کرنے اور کسانوں کی تربیت کیلئے جس طرح کی مدد یونیورسٹی انتظامیہ سے درکار ہووہ فوری فراہم کی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ اس ٹیکنالوجی کو فروغ دینے سے ماحول پر مثبت اثرات مرتب ہونے کے ساتھ ساتھ صارفین کو کیمیکل سے پاک پھل‘ سبزیا ں اور دوسری زرعی اجناس دستیاب ہونگی جس سے ان کی صحت بہتر اور کارکردگی میں بھی نمایاں اضافہ ہوگا۔ترکی کے سائنس دان ڈاکٹر کورکمز بیلی ترک نے بتایا کہ ترکی کی زرعی زمینیں کیمیکل فرٹیلائزر کے بڑھتے ہوئے استعمال اور دوسری وجوہات کی وجہ سے نامیاتی مادوں کی کمی کا شکار ہیں لہٰذا ورمی کمپوسٹ فرٹیلائزر ٹیکنالوجی کے استعمال سے ان کی ذرخیزی اور معیار میں بہتری آئی ہے جس سے پیداوار میں اضافہ کے ساتھ ساتھ کیمیکل فرٹیلائزر پر اُٹھنے والا کثیر زرمبادلہ بھی بچایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے ملک میں ہزاروں ادارے ورمی کمپوسٹ فرٹیلائزر تیار کر نے کے ساتھ ساتھ ساتھ کچھ کمپنیاں پروڈکشن یونٹ برآمد بھی کر رہی ہیں۔ پنجاب شوگرکین ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر شاہد افغان نے بتایا کہ ان کے ادارے میں اپلائیڈ ریسرچ کیلئے 60کروڑ روپے کے فنڈز موجود ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اگر ہم صرف شوگرکین انڈسٹری میں کیمیکل فرٹیلائزرکے بجائے کمپوسٹ کھادکا استعمال یقینی بنالیں تو سالانہ 10ار ب روپے سے زائد کی بچت کے ساتھ ساتھ نامیاتی خوراک کی فروخت سے کسان کی آمدنی بڑھانے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ سیمینار سے ڈاکٹر آصف تنویر‘ ڈاکٹر زبیراسلم‘ ڈاکٹر کیہان یلمز اور ڈاکٹر اشفاق چٹھہ نے بھی خطاب کیا۔