حالیہ برسوں میں امریکہ و میکسکو سے آنیوالی گاجر بوٹی کا اگر موثر تدارک نہ کیا گیا تو ملک کی دیہی و شہری آبادی میں الرجی‘ خارش‘ دمہ اور چنبل کی بیماریوں میں ہوشربا اضافہ ہوجائے گا جو قومی ترقی کی شرح نمو میں کمی کا باعث بنے گا۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے ماہرین اس قبضہ مافیا بوٹی کے موثر انسداد کیلئے سب سے پہلے میدان عمل میں اُتر چکے ہیں اور پورے ملک میں اپنی آؤٹ ریچ سرگرمیوں میں تیزی لاتے ہوئے گلی گلی قریہ قریہ اس کی روک تھام کیلئے آگاہی پروگرام کر رہے ہیں جویقینا نتیجہ خیز ثابت ہوں گے۔ یہ باتیں زرعی یونیورسٹی فیصل آبادکے انسٹی ٹیوٹ آف ایگریکلچرل ایکسٹینشن و رورل ڈویلپمنٹ اور سینٹر فار ایگریکلچراینڈ بائیو سائنس انٹرنیشنل(کیبی)کے اشتراک سے یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ میں روم پریس بریفنگ میں کہیں گئیں۔صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے یونیورسٹی کے وائس چانسلرڈاکٹر محمد اشرف نے توقع ظاہر کی کہ لوگ بہترین تنظیم سازی کے ذریعے اپنے گرد و نواح میں گاجر بوٹی کے پائیدار و موثر خاتمے کے حوالے سے ایسا ماڈل متعارف کروا سکتے ہیں جس کی دوسرے اضلاع اور دیہاتوں میں مثال دی جا سکے۔انہوں نے بتایا کہ ان کی زیرقیادت یونیورسٹی ماہرین تحقیقاتی لیبارٹریوں سے نکل کر کاشتکاروں تک پہنچ رہے ہیں تاکہ اپنے علم و مشاہدے کی بنیاد پر سامنے آنیوالی ٹیکنالوجی کو کسانوں تک پہنچایا جا سکے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ آئندہ سال مارچ میں یونیورسٹی کے کسان میلے میں چھوٹی زرعی مشینری‘ بہترین کوالٹی کے مقامی بیج‘ چھوٹی ٹنل‘ گندم و مکئی کے چھوٹے پلانٹرز کسانوں کو متعارف کروائے جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ چین میں ایک عام کسان 6کینال اراضی کا مالک ہے جہاں دو ٹنل کی تنصیب کے ساتھ سالانہ 8ہزار ڈالر سے زائد آمدنی کما رہا ہے لہٰذا ہمیں بھی چھوٹے زرعی رقبوں کے مالک کسانوں کو توجہ مرکوز کرتے ہوئے ان کیلئے کاشتکاری ایک منافع بخش کاروبار بنانے کیلئے اسکا ہاتھ تھامنا ہوگا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ چند مہینوں کے دوران یونیورسٹی کو ٹائمز ہائر ایجوکیشن رینکنگ میں دنیا کی 500ممتاز جامعات میں شامل کروانے کیلئے کوشاں ہیں جس کیلئے سائنسدانوں کو قابل عمل روڈ میپ دے دیا گیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یونیورسٹی میں کام کرنیوالے کسی ایڈہاک یا کنٹریکٹ ملازم کو ہرگزبے روزگار نہیں کیا جائے گا اور ان کی یہ کوشش ہے کہ جلد ہی خالی آسامیوں کا اشتہار اخبارات میں شائع کرواکر اہل افراد کی میرٹ پر تعیناتی ممکن بنائی جائے۔ انہوں نے ملازمت میں توسیع نہ ہونے سے متاثر ہونیوالے ملازمین پر زور دیا کہ فی الوقت ڈیلی پیڈ لیبر کے طو رپر ٹیم کا حصہ بنے رہیں تاکہ قومی سطح پر مشتہر آسامیوں پر بھرتی کیلئے انہیں ترجیحی طور پر زیرغور لایا جا سکے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ جلد ہی پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے اجلاس میں یونیورسٹی کیلئے سیڈپروڈکشن سنٹر کی منظوری دے دی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی وائس چانسلرتعیناتی سے پہلے یونیورسٹی کے 32ڈگر ی پروگرامز ہائر ایجوکیشن کمیشن و دوسرے اداروں کی اجازت کے بغیر چلائے جا رہے تھے تاہم وہ بھرپور کوشش اور وکالت کے بعد مختصر عرصہ میں ان تمام پروگرامز کے این او سی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ سموگ کے حوالے سے کئے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ حکومت کی طرف سے ضروری قانون سازی کی جا رہی ہے اور وہ توقع رکھتے ہیں کہ قوانین پر سختی سے عملدرآمد کے نتیجہ میں بہتری آئے گی۔ پروگرام کے فوکل پرسن ڈاکٹر اعجاز اشرف نے انکشاف کیا کہ حالیہ برسوں کے دران اسلام آباد کے الرجی سینٹر کے ساتھ ساتھ شہر کے الائیڈ ہسپتال میں الرجی‘ خارش کے مریضو ں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ نوٹ کیا گیا ہے جس کی بڑی وجہ زہریلے کیمیکلز کی حامل گاجر بوٹی کی جانوروں کی خوراک اور حکمیوں کی طرف سے انسانی ادویات میں اس کا بڑھتا ہوا استعمال ہے لہٰذا وہ سمجھتے ہیں کہ اسے جڑ سے اکھاڑ کر زمین میں دبادینا ہی اس کا موثر تدارک ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران گاجر بوٹی کے موثر انسداد کیلئے آگاہی کے سلسلہ میں وہ چالیس کے لگ بھگ پروگرام کر چکے ہیں 5ہزار سے زائد لوگوں تک براہ راست گاجر بوٹی کے حوالے سے ضروری معلومات فراہم کی گئیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہرچند گاجر بوٹی بیماری اور غربت اپنے ساتھ لیکر جاتی ہے اور جہاں پنجے گاڑھ لیتی ہے بڑی تیزی سے اپنی آبادی میں اضافہ کرلیتی ہے تاہم آسٹریلیا نے اس کے موثر تدارک کیلئے ایسے کیڑے متعارف کروائے ہیں جو اس بوٹی کو کم وقت میں کھا کر ختم کر دیتے ہیں لیکن وہ سال میں صرف دو ماہ یہ کام کرپاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہرچند پاکستانی معاشرے میں تنظیم سازی ایک انتہائی مشکل کام ہے تاہم اگر اس طرح گاؤں کے لوگ منظم ہوکر کسی مہم کو آگے بڑھائیں تو اس کی کامیابی یقینی ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ بہت سے کاشتکار لاعلمی میں کھیت میں روٹا ویٹر کے استعمال سے اس کے پودوں اور بیج کو زمین میں دفن کر رہے ہیں جس کی وجہ سے کھیت میں فصل کے پودوں کی تعداد اور پیداوار نئے مسائل کا شکار ہے۔ کیبی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالرحمن نے کہا کہ گاجر بوٹی ہرگزمقامی جڑی بوٹی نہیں ہے یہ امریکہ و میکسکو سے برصغیر میں پہنچی جس نے بہت کم وقت میں پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیااور وہ خبردار کر رہے ہیں کہ اگر اس کی موثر روک تھام اور انسداد نہ کیا گیا تو یہ اگلے دس برسوں میں اپنی خطرناک شکل میں انسانی اور حیوانی آبادیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ انہوں نے بتایا کہ کئی ممالک نے اس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے قانون سازی بھی کی ہے جس میں اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے والوں کیلئے پرکشش امدادی پیکیج بھی شامل ہے۔ انہوں نے بتایاکہ چونکہ گاجر بوٹی اپنے اردگرد بوئی جانیوالی کسی بھی فصل کے بیجوں کی چالیس فیصد تک بوائی کو کم کردیتی ہے اس طرح اس کی پیداوار میں بھی اسی تناسب سے کمی کا باعث بنتی ہے لہٰذاکھیت کے کناروں اور درمیان اس کا فوری طور پر خاتمہ کیا جائے۔ پریس بریفنگ میں ڈین سوشل سائنسز ڈاکٹر محمود رندھاوا‘ رجسٹرار طارق سعید‘ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف ایگریکلچرل ایکسٹینشن و رورل ڈویلپمنٹ ڈاکٹر خالد محمود چوہدری اور ڈاکٹر عمیرصفدر‘ ڈاکٹر نائمہ نواز‘ ڈاکٹر عائشہ ریاض‘ محترمہ عدیلہ بھی موجود تھیں۔ قبل ازیں وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر محمد اشرف کے والد محترم جوگزشتہ ہفتے کے دوران رضائے الٰہی سے 90سال کی عمر میں انتقال فرما گئے تھے‘ کی روح کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔