جو لالچ اور لٹھے کے اس شہر کو شہر مواخات کے طور پر شناخت دلوا سکے۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے کیس آڈیٹوریم میں اپنی کتاب ”مولومصلی“ کی تقریب پذیرائی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 80لاکھ کی آبادی میں سے اگر صرف ایک لاکھ لوگ روزانہ دس روپے وقف کریں تو روزانہ 10لاکھ روپے جمع ہوسکتے ہیں جس سے ہم کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے والے سینکڑوں لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے خودروزگار کے قابل بناسکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس شہر سے صدقات بینک شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے ذریعے بے روزگار اور غربت کا شکار لوگوں کو کاروبار شروع کرنے کیلئے آسان قرضے دینے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں وہ احساس فروغ دینے کے آرزومند ہیں جو مواخات مدینہ کی اصل روح ہے۔ انہوں نے کہا کہ کتاب میں سامنے لائے جانیوالے کردار حقیقی ہیں جو پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے اور بکھرے ہوئے لاکھوں لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں لہٰذا ہمیں اپنے اردگرد موجود ایسے کرداروں کی نہ صرف عزت نفس بحال کرنی ہے بلکہ ان کے تعمیری کردار کی تحسین کرتے ہوئے معاشرے میں انہیں ان کا مقام بھی دلانا ہے۔انہوں نے کہا کہ کتاب کے ذریعے انہوں نے صرف نشاندہی کی ہے کہ ہمارے اردگرد سینکڑوں ایسے گمنام سپاہی اور معاشرے کی تشکیل میں اپنا تعمیری کردار ادا کرنے والے معمولی لوگ کس قدر اہم ہیں اور ان کا ہاتھ تھام کر انہیں باعزت مقام دینے کیلئے ہمیں کسی حکومت کی چنداں ضرورت نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم حکومتی کمزوریوں کوذمہ دار قرار دیتے ہوئے اپنے فرائض سے ہرگز راہ فراراختیار نہیں کر سکتے اور اخوت کا سلسلہ بھی اپنے ضمیر کی عدالت اور روزقیامت اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے حوالے سے شرمساری سے بچنے کی جدوجہد ہے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر محمد اشرف (ہلال امتیاز)نے کہا کہ امریکہ‘ برطانیہ‘ کینیڈا اور دوسرے یورپی ممالک کے مقابلہ میں پاکستانی معاشرے میں انسانوں کے ساتھ بھیڑبکریوں جیسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور ان کی عزت و توقیر کو ان کے پیشے کی نظرسے دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر امجد ثاقب اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں جو معاشرے میں موجود کانٹوں کو چننے اور پھول اُگانے کے مشن پر گامزن ہیں لہٰذا وہ توقع رکھتے ہیں کہ جس خلوص‘ احساس اور جنون کے ساتھ وہ اس کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں ضرورکامیابی سے ہمکنار ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس معاشرے کی تشکیل میں ڈاکٹر امجد ثاقب کا دست و بازو بننا ہے جس میں مولومصلیوں کو بھی وہی حقوق اور احترام حاصل ہو جو آج صرف پیسے کی بنیاد پر بڑا مقام و مرتبہ رکھنے والو ں کو حاصل ہے۔ ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم نے کہا کہ معاشرے میں فکری پاکیزگی اور روحانی بالیدگی کیلئے ضروری ہے کہ ہم ڈاکٹر امجد ثاقب کی قیادت میں اخوت کے شجر طیب سے منسلک ہوکر نہ صرف خود روشنی اور اُمیدوں کے چراغ جلائیں بلکہ اس مشن کیلئے خود کو وقف کرتے ہوئے لاکھوں لوگوں کو اس جنون کا حصہ بنائیں۔ انہوں نے کہاکہ ڈاکٹر امجد ثاقب کی روشن‘ مثالی اور کرشماتی شخصیت کی قیادت میں اخوت نے منزل مراد کا خاصا سفر طے کر لیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم معاشرتی عمارت کی بنیاد وں کو اپنے لہو سے سینچنے والے لیکن معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے لوگوں کو ان کے پیشوں کے بجائے صرف انسانیت کی نظر سے دیکھنے اور عزت نفس بحال کرنے کو رواج دے سکیں تو یہ تکمیل پاکستان کی جانب اہم پیش رفت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر امجد ثاقب اپنی کتاب کے ذریعے ہمارے احساس کو جھنجھوڑ رہے ہیں کہ حکومت کی طرف دیکھنے کے بجائے ہم کس طرح معاشرے کے ان پسے ہوئے لوگوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں خودروزگار کے قابل بناتے ہوئے ان کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر ریاض مجید نے کہا کہ ڈاکٹر امجد ثاقب کی اپنے مشن کے ساتھ غیرمتزلزل وابستگی‘ اخلاص اور پیہم محنت اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ اپنے خواب کو ضرور شرمندہئ تعبیر کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ معاشرتی مولو مصلی صرف ایک دن اپنا کام بند کر دیں تو پوری سوسائٹی معلق ہوکر رہ جائے لہٰذا وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے کردار کی تحسین کرتے ہوئے ان کی عزت و توقیر اور ان کیلئے آگے بڑھنے کا راستہ ہموار کرنا بھی ایک زندہ معاشرے کا جزولازم ہے۔ انجینئر عبدالستار نعیم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو دھدکارا ہے جو معاشرے کے غریب اور وسائل نہ رکھنے والوں کو عزت نہیں دیتے۔ انہوں نے کہا کہ کتاب میں موجود مولو مصلی کی 39کہانیاں ہمارے معاشرے کے ہر شہر اور گاؤں کی کہانی ہے لہٰذا وہ مواخات مدینہ کی روح کے مطابق ایسا معاشرہ تشکیل دینے کیلئے ڈاکٹر امجدثاقب کے بڑے خواب میں ان کے مولومصلی بننے کو بھی اپنے لئے اعزاز سمجھیں گے۔اخوت سٹیئرنگ کمیٹی کے چیئرمین پرویز خالد شیخ نے اخوت کے زیراہتمام جاری سرگرمیوں کا احاطہ کرتے ہوئے تقریب کے شرکاء اور منتظمین کا شکریہ ادا کیا۔ تقریب کی نقابت کے فرائض معظم بن ظہور نے ادا کئے۔