یہ باتیں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں شعبہ اناٹومی اور ورلڈ کیمل ایسوسی ایشن کے اشتراک سے ورلڈ کیمل ڈے کے توسط سے منعقد ہونے والی کیمل کانفرنس کے افتتاحی سیشن کے مقررین نے کہیں۔ نیو سینٹ ہال میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے مہمان خصوصی یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر محمد اشرف(ہلال امتیاز) تھے جبکہ یونیورسٹی آف ویٹرنری و اینمل سائنسز لاہور کے سابق وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹرمحمد نواز نے مہمان اعزاز کے طور پر تقریب میں شرکت کی۔ شرکاء سے اپنے خطاب میں ڈاکٹر محمد اشرف نے کہا کہ اونٹ کے دودھ میں لیکٹوفرن کی شرح ماں کے دودھ کی طرح زیادہ ہوتی ہے جو انسانی جسم میں قوت مدافعت کو بڑھانے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قدرت نے اونٹ میں گرمی اور خشک سالی سے مقابلہ کی خصوصیت رکھی ہے لہٰذا اس کے جینزکوگرمی اور خشک سالی سے متاثر ہونے والے جانوروں کے جینز کا حصہ بنایا جائے تو سخت دنوں میں ان کی پیداواریت میں بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اونٹ کے دودھ میں زنک اور پوٹاشیم کی مقدار کہیں زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ انسانی غذا کا بہترین جزوقرار دیاجاتا ہے لہٰذا پاکستان میں اونٹوں کی تعداد اور پیداواریت میں اضافہ کیلئے حکومتی سطح پر اسے پالنے والوں کا ہاتھ تھاما جانا چاہئے تاکہ وہ مزید توانائیوں سے اس کی نشوونما کر سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ چین میں اونٹوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر چینی سپرسٹور میں اونٹ کا دودھ وافر مقدارمیں موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے مقامی اونٹوں کے جین پول تیار کرکے ا ن کے ڈی این اے کریکٹرسٹکس کو محفوظ کرنا چاہئے تاکہ پوری دنیا میں انہیں پاکستانی اونٹوں کے نام سے موسوم کیا جا سکے۔ ڈاکٹر محمد نواز نے اونٹی کے دودھ کو45برس سے زائد عمر کے مردوں کیلئے توانائی کا سرچشمہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں بین الاقوامی سطح پر اونٹ میلے کا انعقاد کرنا چاہئے تاکہ دنیا بھر سے آنیوالے اُونٹوں کے مقابلے میں اپنے مقامی اونٹ کو صحیح طریقے سے متعارف کروایا جا سکے۔ کانفرنس کے کلیدی مقرر ڈاکٹر محمد یونس نے کہا کہ پاکستانی اونٹ خطے میں سب سے زیادہ دددھ دیتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اس کے دودھ کی مناسب مارکٹنگ کی جائے تو اونٹ پالنے والوں کی آمدنی بڑھانے کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کے مقابلے میں آج شہروں میں بسنے والے لوگ اونٹ کے دودھ کی افادیت سے خاطر خواہ جانکاری رکھتے ہیں جس کی وجہ سے شہرو ں میں اونٹ کے دودھ اور گوشت کی مانگ میں اضافہ ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان میں اونٹوں کی تعداد 10لاکھ ہی ہے جس میں اضافہ کیلئے حکومتی سطح پر کاوشیں کی جانی چاہئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں اونٹوں کی تعداد 9لاکھ سے کم ہوکر 4لاکھ رہ گئی ہے لہٰذا پاکستان میں اس کی آبادی بڑھانے کیلئے اس پیشہ سے وابستہ افراد کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ ڈین کلیہ ویٹرنری سائنس ڈاکٹر ظفر اقبال قریشی نے کہا کہ قومی شرح نمو میں کراپ سائنس کے مقابلے میں لائیوسٹاک سیکٹر ہدف سے بڑھ کر حصہ ڈال رہا ہے لہٰذا اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ کانفرنس سے جرمن سائنس دان ڈاکٹر ایچ جا شوارٹز‘ ڈاکٹر صالحہ گل‘ ڈاکٹر انس سرور قریشی اور ڈاکٹر سرمد ریحان نے بھی خطاب کیا۔