تاکہ عملی میدان میں وہ دوسری جامعات کے گریجوایٹس سے خو د کو ممتاز اور نمایاں طور پر پیش کر سکیں۔ شعبہ طفیلیات (پیراسٹالوجی) کے زیراہتمام پنجاب ایگریکلچرل ریسرچ بورڈ (پارب) کے تعاون سے نیو سینٹ ہال میں مچھرسے پیداہونیوالی بیماریوں پر ہینڈز آن ٹریننگ ورکشاپ کے افتتاحی سیشن سے مہمان خصوصی کے طور پر اپنے خطاب میں ڈاکٹر محمد اشرف نے تمام ڈینز و ڈائریکٹرز اور چیئرمینوں پر زور دیا کہ اپنے ساتھی اساتذہ اور طلبہ تک وہ تمام علوم و فنون اور اطلاقی ہنراس طرح پہنچائیں جو ان کی عملی و پیشہ وارانہ زندگی کا سرمایہ بن سکے۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ تمام تدریسی شعبہ جات میں کم سے کم ایک کلاس روم کوجدید آئی ٹی سہولیات اور کلاس بورڈ کو فوری طور پر انٹریکٹوبنانے کے ساتھ ساتھ ماہرین کو ایسا سازگار ماحول فراہم کرے گی جس میں حقیقی سائنس کلچر فروغ پائے گا۔ انہوں نے نوجوان طلبہ پر زور دیا کہ پیشہ وارانہ اُمور پر گہری نظر رکھیں اور خود کو عمومی تحقیق میں مصروف رکھنے کی بجائے معاشرے میں موجود مسائل کے پائیدار حل پر نظریں جماتے ہوئے اپنی تحقیقات اور ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ میں پیش رفت کریں جس سے زندگی میں آسانیاں پیدا ہوسکیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ یونیورسٹی میں ایسی تحقیق کی ہرگز حوصلہ افزائی نہیں کریں گے جس کے نتائج سے معاشرے میں کچھ بہتری پیدا نہ ہو سکے اور وہ محض لائبریریوں کی زینت بن کر رہ جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ معیاری تدریس اور معیار تعلیم پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور ایسے اساتذہ کا بھی سختی سے محاسبہ کیا جائے گا جو اپنے پیغمبری پیشہ میں خیانت کے مرتکب ہوتے ہوئے ٹیچنگ اسسٹنٹ یا ریسرچ اسسٹنٹ کو اپنی جگہ پڑھانے کیلئے کلاس روم میں بھیجتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی میں ڈین سائنسز کے طور پر انہوں نے چھ برس تک خدمات سرانجام دی ہیں لیکن اپنی تدریسی ذمہ داریوں سے ایک لمحہ کیلئے بھی غافل نہیں رہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہر یونیورسٹی خود کو درجہ بندی میں ٹاپ یونیورسٹی قراردیتی ہے تاہم ان کی کوشش ہوگی کہ زرعی یونیورسٹی کو کیو ایس‘ ٹائمز اور دوسرے معتبر رینکنگ سسٹم میں دنیا کی 500بہترین جامعات میں شامل کروا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے متعدد اساتذہ بلاشبہ نابغہ روزگار ہیں جو یقینا یونیورسٹی کے ماتھے کا خوبصورت جھومر ہیں تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یونیورسٹی میں سازگار تعلیمی و تحقیقی ماحول یقینی بنا دیا جائے تو رینکنگ کے اہداف چند مہینوں میں پورے کئے جا سکیں گے۔ ان سے پہلے ڈین کلیہ ویٹرنری سائنس پروفیسرڈاکٹر ظفر اقبال قریشی نے ماہرین پر زور دیا کہ خود کو کمیونٹی کے ساتھ وابستہ کریں اپنی تحقیقاتی ترجیحات کومعاشرتی بہتری اور آسانیوں پر مرکوز کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ چند برس پہلے تک جامعات میں امپیکٹ فیکٹر بہت تھا تاہم اب معاشرے پر تحقیقات کی اثرپذیری یعنی کمیونٹی امپیکٹ ترجیح بن چکا ہے لہٰذا وہ چاہیں گے کہ یونیورسٹی سائنس دان اپنی تحقیقات کو معاشرتی ضرورتوں سے ہم آہنگ کریں تاکہ یونیورسٹی اپنے اثرات کی وجہ سے معاشرے میں مقبولیت حاصل کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے ممالک میں معمولی کوتاہی یا مسئلے کی صورت میں پوری کمیونٹی متحرک ہوجاتی ہے اور ذمہ دار ادارے اصلاح احوال کیلئے فوری کام شروع کردیتے ہیں تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں معاشرتی اور انفرادی بے حسی بھی مسائل دیرسے حل ہونے کی ذمہ دار ہے۔ انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ جلد ہی پاکستان میں بھی ادارے اپنی تمام توانائیاں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے صرف کریں گے اور خود احتسابی اور معاشرتی دباؤسے مسائل کا پائیدار حل نکل پائے گا۔ ورکشاپ میں ڈاکٹر اشفاق احمد چٹھہ چیف آف پارٹی سینٹر فار ایڈوانسڈ سٹڈیز‘ ڈاکٹر وسیم اکرم‘ ڈاکٹر شاہد مجید‘ڈاکٹر آصف محمود‘ ڈاکٹر فیض احمد رضا‘ ڈاکٹر سہیل ساجد‘ ڈاکٹر محمد عمران‘ڈاکٹر بلال‘ ڈاکٹر سپرا اور ڈاکٹر محمد عمران ارشدبھی شریک تھے۔