یونیوسٹی کے نیو سینٹ ہال میں دو روزہ ڈائس ایونٹ کے ابتدائی سیشن کے مہمان خصوصی نامور ماہر تعلیم پروفیسرڈاکٹر ظہیر جاوید پراچہ تھے جبکہ ڈائس فاﺅنڈیشن امریکہ کے صدر ڈاکٹر سعدالٰہی اور چیئرپرسن ڈاکٹر خورشید قریشی نے مہمانان اعزاز کے طور پر تقریب میں شرکت کی۔ اس موقع پر مہمان خصوصی کے طور پر اپنے خطاب میں ڈاکٹر ظہیر احمد پراچہ نے کہا کہ جدید دور میں جامعاتی سرگرمیوں اور ترجیحات میں خاطر خواہ تبدیلی وقوع پذیر ہوئی ہے اور آج وہی جامعات اپنے اہداف کی جانب کامیابی سے پیش قدمی کر سکتی ہیں جن کے طلباءو طالبات میں انٹرپری نیورشپ کا شعور اور اس جانب سنجیدہ کاوشیں بروئے کار لائی جائیں گی۔ انہوں نے کہاکہ ہرچند جامعات میں اب انٹرپری نیورشپ کو رواج دیا جا رہا ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ یہاں سامنے آنیوالے نئے بزنس آئیڈیاز کو محض نمائش تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اس میں پرائیویٹ سیکٹر سے سرمایہ کاری کیلئے بھی سازگار ماحول مہیا کیا جائے۔ ان کاکہنا تھا کہ خوش قسمتی سے پاکستانی آبادی میں 60فیصد لوگ 15سے 35سال عمر میں ہیں جن میں مسابقتی ماحول اور ان کی صلاحیتوں کو اچھوتے آئیڈیاز کے ساتھ کاروباری سمت دینے کی ضرورت ہے جس سے ملکی معیشت کوبرق رفتار اور پائیدار ترقی سے ہمکنار کیا جا سکے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں انڈسٹری کو مختلف سیکٹرز میں تقسیم کرکے صنعتی ذمہ داران کی مشاورت سے اپنے گریجوایٹس کوصنعتی یونٹوں کی استعداد کار اور منافع بڑھانے سمیت پیداواری لاگت میں کمی کا بھی ہدف دینا چاہئے تاکہ انڈسٹری میں یونیورسٹی طلبہ کی پذیرائی میں خاطر خواہ اضافہ کی راہ ہموار کی جا سکے۔انہوں نے جامعات پر زور دیا کہ ڈائس انوویشن بزنس آئیڈیاز نمائش میں کامیاب ہونے والی ٹیموں کا ہاتھ تھامتے ہوئے انہیں قانونی معاونت سمیت ابتدائی سرمایہ بھی فراہم کریں تاکہ وہ اپنے اچھوتے آئیڈیاز کوکاروبار کی شکل دے کر اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کیلئے بھی باعزت روزگار کا باعث بن سکیں۔
ڈائس فاﺅنڈیشن کے صدر ڈاکٹر سعید الٰہی نے کہا کہ آج جامعات میں اختراع و اشتراک کو فروغ دینے کیلئے سازگار ماحول دستیاب ہے تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ نٹرپری نیورشپ کوترجیحی ایجنڈے کا حصہ بناکرنوجوانوں کو کاروبار کیلئے وسائل فراہم کرنے میں پرائیویٹ سیکٹر اپنی توانائیاں صرف کرے۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی ہمارے اردگردخوراک و زراعت ‘ صحت‘ توانائی‘ پانی اور ماحولیات سمیت بہت سے مسائل موجود ہیں جن کا پائیدار حل تجویز کرتے ہوئے اپنے آئیڈیازکوعام لوگوں کیلئے پرکشش بناکر ایسی ٹیکنالوجی اور سروسز سامنے لائی جا سکتی ہیں جن سے نیا کاروباررواج پا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا ادارہ ڈائس ٹیکسٹائل‘ ڈائس آٹوموٹو‘ ڈائس کریٹوآرٹس اینڈ میڈیا کے ساتھ ساتھ ڈائس ایگریکلچرو فوڈ سائنس جیسے مقابلے منعقد کروا کر نوجوانوں کونئے اور اچھوتے آئیڈیا کی بنیاد پر اپنا کاروبار یا سروس شروع کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ چیئرپرسن ڈائس ڈاکٹر خورشید قریشی نے کہا کہ ملک میں 40فیصد پھل ‘ سبزیاں و زرعی اجناس کھیت سے صارف تک پہنچنے کے دوران برداشت‘ ہینڈلنگ‘ سٹوریج اور ٹرانسپورٹیشن کے نامناسب انتظامات کی وجہ سے ضائع ہوجاتی ہے جبکہ95فیصد دودھ ویلیو ایڈیشن اور پراسیسنگ نہ ہونے کی وجہ سے نچلی سطح پر کسان کی آمدنی بڑھانے میں بڑی رکاوٹ کے طور پر موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ 40فیصد خواتین اور بچے غذائی کمی کا شکار ہونے کی وجہ سے قوم پر بیماری کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے لہٰذا وہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں موجود مسائل کا پائیدار حل نکالنے کیلئے یونیورسٹی کے نوجوانوں کواچھوتے آئیڈیازکے ساتھ سامنے آنا ہوگا۔ ڈائریکٹر اورک زرعی یونیورسٹی ڈاکٹر ظہیر احمد ظہیر نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کی آبادی 2030ءتک دوگنا ہوجائے گی جس کیلئے زرعی پیداوار میںاتنی ہی شرح میں اضافہ ناگزیرہے لہٰذا فی ایکڑ پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ سمیت فرٹیلائزو دوسرے زرعی مداخل کے متناسب استعمال کی تدبیرواقعتااہم پیش رفت ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا ادارہ ڈائس کے پلیٹ فارم سے مسلسل تیسرا ڈائس ایونٹ منعقد کر رہی ہے جس سے جامعات میں اختراع کے ساتھ ساتھ انٹر پری نیورشپ کا کلچر بھی مضبوط بنیاد پکڑتا جا رہا ہے۔ سیمینار کے بعد مہمان خصوصی ڈاکٹر ظہیر جاوید پراچہ نے ڈائس کے ذمہ داران اور دوسرے مہمانوں کے ہمراہ ایکسپوسنٹر میں بزنس پلان مقابلوں کا افتتاح بھی کیا۔ سیمینار سے آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے صدر انجینئر رضوان اشرف‘ ڈاکٹر حبیب اسلم گابا ‘ڈاکٹر ندیم طارق‘ ڈاکٹر عبدالعفور اور ڈاکٹر وسیم احمد نے بھی خطاب کیا۔